تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو محصور دیکھ کر اپنے ہمراہیوں کو جرأت وغیرت دلائی اور ان کی ہمت بندھائی پھر مرتدین پر حملہ آور ہوئے‘ نہایت سخت معرکہ ہوا‘ بالآخر لشکر اسلام کو غلبہ حاصل ہوا‘ قیس و عمرو دونوں سردار مسلمانوں کی قید میں آئے‘ بہت سے مرتدین ہلاک و گرفتار اور بقیتہ السیف فرار کی عار گوارا کرنے پر مجبور ہوئے‘ قیس و عمرو‘ کو مدینہ منورہ کی طرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کیا‘ مدینہ منورہ میں پہنچ کر دونوں نے اپنے ارتداد سے پشیمانی کا اظہار کیا اور بخوشی اسلام قبول کر کے قید سے آزاد اور بحکم صدیقی یمن کی طرف مراجعت فرما ہوئے۔ مہاجربن ابی امیہ رضی اللہ عنہ نجران کی جنگ میں مرتدین یمن کی کمر توڑ کر آگے بڑھے اور صنعاء میں پہنچ کر اس جگہ کے ان مرتدین کو جو برسر مقابلہ آئے شکست پر شکست دے کر تمام علاقہ کو پاک و صاف کر دیا‘ اسی جگہ عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل آ کر شریک لشکر ہوئے‘ یہاں سے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق دونوں سردار بنو کندہ کی سرکوبی کے لیے بڑھے‘ بنو کندہ نے اشعث بن قیس کو اپنا سردار بنا کر لشکر اسلام کے مقابلہ کی زبردست تیاریاں کی تھیں اور روز بروز ان کی جمعیت میں اضافہ ہو رہا تھا‘ یہ خبر سن کر مہاجر بن رضی اللہ عنہ ابی امیہ نے لشکر اسلام میں سے تیز رفتار سواروں کا ایک دستہ منتخب کر کے اپنے ہمراہ لیا اور لشکر عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل کی سرداری میں چھوڑ کر نہایت تیزی و برق رفتاری سے یلغار کرتے ہوئے مقام حجر میں جہاں اشعث بن قیس مرتدین کا لشکر لیے ہوئے پڑا تھا پہنچے اور جاتے ہی قضائے مبرم کی طرح مرتدین پر ٹوٹ پڑے‘ مرتدین اس حملہ کی تاب نہ لا سکے‘ سراسیمہ ہو کر بھاگے۔ اشعث نے وہاں سے فرار ہو کر قلعہ بخیر میں پناہ لی‘ وہیں تمام مرتدین پہنچ کر قلعہ بند ہو گئے‘ مہاجر بن بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا‘ اسی عرصہ میں عکرمہ بن ابی جہل اسلامی لشکر لیے ہوئے آ پہنچے‘ محاصرہ کی سختی اور کمک و سامان رسد کی آمد سے مایوس ہو کر اشعث نے صلح کی درخواست پیش کی‘ یہ درخواست اس قدر عاجز ہو کر پیش کی کہ اس نے اپنی قوم کے صرف نو آدمیوں کے لیے معہ اہل و عیال جان بخشی و رہائی چاہی‘ مہاجر رضی اللہ عنہ نے اس درخواست کو منظور کر لیا‘ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ اشعث غلطی سے ان نو آدمیوں کی فہرست میں اپنا نام بھول گیا تھا‘ چنانچہ ان نو آدمیوں کو چھوڑ کر باقی کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا‘ ان اسیران جنگ میں اشعث بن قیس بھی شامل تھا۔ جب یہ لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے مدینے میں لا کر پیش کئے گئے تو اشعث نے اپنے افعال گذشتہ پر پشیمانی کا اظہار کیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ میرا اسلام قبول فرما لیں‘ میں بطیب خاطر اسلام کو پسند اور اختیار کرتا ہوں‘ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اشعث بلکہ تمام اسیران بنو کندہ کو آزاد کر دیا اور صرف اس قدر کہا کہ مجھ کو امید ہے کہ میں آئندہ تم سے سوائے بھلائی کے اور کچھ نہ دیکھوں گا۔ ارتداد کا استیصال کامل غرض ۱۱ ھ کے ختم اور ۱۲ ھ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے یعنی ایک سال سے کم مدت میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ملک عرب کے فتنۂ ارتداد پر پورے طور پر غالب آ گئے‘ محرم ۱۱ ھ میں جزیرۃ العرب مشرکین و مرتدین سے بالکل پاک و صاف ہو