تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نرمی سے پیش آئیں گے‘ تاکہ ہماری طرف سے ظلم کی ابتدا نہ ہو لیکن ہم کسی کام کو بھی جس میں ذرا سا بھی فساد ہو گا‘ بغیر اصلاح نہ چھوڑیں گے‘ یہ باتیں سننے کے بعد اہل کوفہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام ذی قار میں قیام پذیر ہو گئے۔ دوسرے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی طرف روانہ کیا‘ اسی مقام ذی قار میں سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ مشہور تابعی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی مصالحت کی کوشش سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس لیے بصرہ کی طرف روانہ کیا کہ وہ وہاں جا کر سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کا عندیہ معلوم کریں‘ اور جہاں تک ممکن ہو ان حضرات کو صلح و اشتی کی طرف مائل کر کے بیعت اور تجدید بیعت کے لیے آمادہ کریں۔ سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ بڑے زبان آور عقلمندر اور ذی اثر اور رسول اللہ ص کی صحبت سے فیض یافتہ تھے‘ انہوں نے بصرہ میں پہنچ کر مذکورۃ الصدر بزرگوں سے ملاقات کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ کو اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا ہے‘ اور آپ کی کیا خواہش ہے‘ انہوں نے فرمایا کہ میرا مدعا صرف مسلمانوں کی اصلاح اور ان کو قرآن پر عامل بنانا ہے‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے‘ ان سے بھی یہی سوال کیا گیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا‘ جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے دیا تھا‘ یہ سن کر سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح اور عمل بالقرآن ہے‘ تو یہ مقصد تو اس طرح پورا نہ ہو گا جس طرح آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ ان بزرگوں نے جواب دیا کہ قرآن کریم میں قصاص کا حکم ہے ‘ ہم خون عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینا چاہتے ہیں۔ سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قصاص اس طرح کہاں لیا جاتا ہے‘ اول امامت و خلافت کا قیام و استحکام ضروری ہے تاکہ امن و امان قائم ہو‘ اس کے بعد قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے بہ آسانی قصاص لیا جا سکتا ہے‘ لیکن جب امن و امان اور کوئی نظام ملکی باقی نہ رہے‘ تو ہر شخص کہاں مجاز ہے کہ وہ قصاص لے‘ دیکھو یہیں بصرہ میں آپ نے بہت سے آدمیوں کو قصاص عثمانی میں قتل کر ڈالا‘ لیکن حرقوص بن زہیر آپ کے ہاتھ نہ آیا‘ آپ نے اس کا تعاقب کیا‘ تو ۶ ہزار آدمی اس کی حمایت میں آپ سے لڑنے کے لیے آمادہ ہو گئے‘ اور آپ نے مصلحتاً اس کا تعاقب چھوڑ دیا‘ اسی طرح اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مصلحتاًفتنہ کے دبانے اور طاقت حاصل کرنے کے انتظار میں مجبورانہ طور پر فوراً قصاص نہ لے سکے تو آپ کو انتظار کرنا چاہیے تھا‘ آپ کے لیے یہ کہاں جائز تھا کہ آپ خود کھڑے ہو جائیں اور اس فتنہ کو اور بڑھائیں‘ اس طرح تو فتنہ ترقی کرے گا‘ مسلمانوں میں خونریزی ہو گی‘ اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ قصاص سے بچے رہیں گے۔ یہ باتیں کہہ کر آخر میں سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نہایت دل سوزی کے ساتھ کہا کہ اے بزرگو! اس وقت سب سے بڑی اصلاح یہی ہے کہ آپس میں صلح کر لو‘ تاکہ مسلمانوں کو امن و عافیت حاصل ہو‘ آپ حضرات مفاتیح خیر اور انجم ہدایت ہیں‘ آپ