تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا امیر معاویہ کی ماتحتی میں تشریف رکھتے تھے‘ وہاں انہوں نے آیہ کریمہ {وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ} (التوبۃ : ۹/۳۴) کے معانی و مطالب میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مخالفت کی‘ ابوذر غفاری فرماتے تھے کہ روپیہ کا جمع کرنا اور سب کا سب راہ اللہ تعالیٰ میں خرچ نہ کر دینا کسی طرح جائز نہیں اور سیدنا امیر معاویہ فرماتے تھے کہ انفاق فی سبیل اللہ سے مراد زکو ۃ کا ادا کرنا ہے‘ جس روپیہ کی زکو ۃ ادا کی جائے اس کا جمع ہونا گناہ نہیں ہے‘ اگر روپیہ کا بلا شرط جمع کرنا گناہ ہوتا تو قرآن کریم میں ترکہ کی تقسیم‘ اور وراثت کے حصہ کا ذکر نہ ہوتا‘ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے اس عقیدہ کا حال وہاں کے لوگوں کو معلوم ہوا تو سب نے ان کا مذاق اڑایا اور نو عمر لوگ خاص کر زیادہ تمسخر کرنے لگے‘ سیدنا ابوذر کا اصرار اور بھی ترقی کرتا گیا‘ یہاں تک نوبت پہنچی کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی کو اس کیفیت کی اطلاع دی‘ خلیفہ وقت نے حکم بھیجا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو نہایت تکریم کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف روانہ کر دو۔ مدینہ میں آ کر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنے عقیدے کا اعلان شروع کر دیا‘ چوں کہ ان کے مزاج میں درشتی تھی‘ لہذا لوگ ان سے عموماً چشم پوشی اور درگذر ہی کرتے تھے‘ لیکن یہاں بھی نوعمر اورخوش طبع لوگ موجود تھے‘ وہ کبھی نہ کبھی ان کو چھیڑ ہی دیتے تھے۔ اتفاقاً اس عرصہ میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی وفات ہوئی‘ وہ بہت مال دار شخص اور عشرہ مبشرہ میں شامل تھے‘ کسی نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ عبدالرحمن بن عوف نے اس قدر دولت چھوڑی ہے‘ ان کی نسبت آپ کا کیا حکم ہے‘ انہوں نے بلا تامل سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پر بھی اپنا فتویٰ جاری کر دیا‘ اس پر سیدنا کعب احبار جو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلمان ہوئے تھے اور بنی اسرائیل کے زبردست عالم تھے معترض ہوئے‘ ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر کہ اے یہودی تجھ کو ان مسائل سے کیا واسطہ‘ اپنا عصا اٹھایا اور کعب احبار پر حملہ آور ہوئے‘ کعب احبار بھاگے اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مجلس کی طرف گئے‘ ان کے پیچھے پیچھے ابوذر بھی اپنا عصا لیے ہوئے پہنچے‘ بڑی مشکل سے سیدنا عثمان کے غلاموں نے کعب احبار کو بچایا‘ اور سیدنا ابوذر کو باز رکھا۔ سیدنا ابوذر کا غصہ جب فرو ہوا تو وہ خود سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میرا عقیدہ تو یہی ہے کہ سب کا سب مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دینا واجب ہے‘ شام کے لوگوں نے میری مخالفت کی اور مجھ کو ستانا چاہا‘ اب مدینہ میں بھی لوگ اسی طرح میری مخالفت کرنے لگے ہیں آپ بتائیں کہ میں کیا تدبیر اختیار کروں اور کہاں چلا جائوں‘ اس پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ مدینہ سے باہر کسی گائوں میں سکونت اختیار فرما لیں‘ چنانچہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ سے تین دن کے فاصلہ پر مقام موضع ربذہ میں جا کر سکونت پذیر ہو گئے۔ خاتم نبوی رسول اللہ کی انگشتری جس سے خطوط اور فرامین پر مہر کیا کرتے تھے وفات نبوی کے بعد سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس تھی‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے وہ انگوٹھی جبکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے تو ان کو سپرد کر دی‘