تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک مرتبہ دو آدمی کھانا کھانے بیٹے‘ ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین‘ اتنے میں ایک اور آدمی آ گیا‘ ان دونوں نے اسے اپنے ساتھ کھانے کو بٹھا لیا‘ جب وہ تیسرا آدمی کھانا کھا کر چلنے لگا تو اس نے آٹھ درم ان دونوں کو دیکر کہا کہ جو کچھ میں نے کھایا ہے اس کے عوض میں سمجھو‘ اس کے جانے کے بعد ان دونوں میں درموں کی تقسیم کے متعلق جھگڑا ہوا‘ پانچ روٹیوں والے نے دوسرے سے کہا کہ میں پانچ درم لوں گا اور تجھ کو تین ملیں گے‘ کیونکہ تیری روٹیاں تین تھیں‘ تین روٹیوں والے نے کہا میں تو نصف سے کم پر ہرگز راضی نہ ہوں گا‘ یعنی چار درم لے کر چھوڑوں گا۔ اس جھگڑے نے یہاں تک طول کھینچا کہ دونوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ آپ نے ان دونوں کا بیان سن کر تین روٹیوں والے سے کہا کہ تیری روٹیاں کم تھیں تین درم تجھ کو زیادہ مل رہے ہیں بہتر ہے کہ تو رضا مند ہو جا‘ اس نے کہا کہ جب تک میری حق رسی نہ ہو گی میں کیسے راضی ہو سکتا ہوں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تیرے حصے میں صرف ایک درہم آئے گا‘ اور تیرے ساتھی کے حصے میں سات درہم آئیں گے‘ یہ سن کر اس کو بہت ہی تعجب ہوا اور اس نے کہا کہ آپ بھی عجیب قسم کا انصاف کر رہے ہیں‘ ذرا مجھ کو سمجھا دیجئے کہ میرے حصے میں ایک اور اس کے حصے میں سات کس طرح آتے ہیں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا سنو کل آٹھ روٹیاں تھیں اور تم تین آدمی تھے‘ چونکہ یہ مساوی طور پر تقسیم نہیں ہو سکتیں‘ لہذا ہر ایک روٹی کے تین ٹکڑے قرار دے کر کل چوبیس ٹکڑے سمجھو‘ یہ تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس نے کم کھایا اور کس نے زیادہ لہذا یہی فرض کرنا پڑے گا کہ تینوں نے برابر کھانا کھایا‘ اور ہر ایک شخص نے آٹھ آٹھ ٹکڑے کھائے‘ تیری تین روٹیوں کے نو ٹکڑوں میں سے ایک اس تیسرے شخص نے کھایا اور آٹھ تیرے حصے میں آئے‘ اور تیرے ساتھی کی پانچ روٹیوں کے پندرہ ٹکڑوں میں سے سات اس تیسرے شخص نے کھائے اور آٹھ تیرے ساتھی کے حصے میں آئے‘ چونکہ تیرا ایک ٹکڑا اور تیرے ساتھی کے ساتھ ٹکڑے‘ کل آٹھ ٹکڑے کھا کر اس نے آٹھ درہم دئیے ہیں لہذا ایک درہم تیرا ہے‘ اور سات درہم تیرے ساتھی کے ہیں‘ یہ سن کر اس نے کہا کہ ہاں اب میں راضی ہوں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ کے یہاں نالش کی کہ فلاں شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے خواب میں میری ماں سے جماع کیا ہے‘ آپ نے فرمایا اس خواب بیان کرنے والے کو دھوپ میں کھڑا کر کے اس کے سایہ کو کوڑے لگائو۔ آپ کے اقوال حکمیہ آپ نے فرمایا‘ لوگو! اپنی زبان اور جسم سے خلا ملا اور اپنے اعمال و قلوب سے جدائی پیدا کرو۔ قیامت میں آدمی کو اسی کا بدلہ ملے گا جو کچھ کر جائے گا اور ان ہی کے ساتھ اس کا حشر ہو گا جن سے اسے محبت ہو گی۔ قبول عمل میں اہتمام بلیغ کرو کیوں کہ کوئی عمل بغیر تقویٰ اور خلوص کے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اے عالم قرآن عامل قرآن بھی بن ‘ عالم وہی ہے جس نے پڑھ کر اس پر عمل کیا اور اپنے علم و عمل میں موافقت پیدا کی‘ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ عالموں کے علم و عمل میں سخت اختلاف ہوگا اور وہ لوگ حلقے باندھ باندھ کر بیٹھیں گے اور ایک دوسرے پر