تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲؎ البقرۃ : ۲/۲۴۷ ۳؎ ’’اور دائود نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا‘ اسے علم دیا۔‘‘ (البقرۃ : ۲۵۱) جب کہ غیر مستحق یعنی ناقابل بادشاہت شخص کو تخت حکومت پر جگہ ملی۔ اس کلیہ میں کسی جگہ استثناء نہ پائو گے اور اس حقیقت کے خلاف ہرگز دوسری بات ثابت نہ کر سکو گے۔ ہر ایک انسان چونکہ اپنی پیدائش اور فطرت میں یکساں حقوق اور یکساں مرتبہ رکھتا ہے‘ لہذا اکتسابی صفات اور سعی و کوشش کے نتائج سے جو فضائل ہو سکتے ہیں وہی انسان کو حکومت و فرمانروائی کا مقام دلا سکتے ہیں۔ {لَّیْسَ لِلْاِِنسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی} ۱؎ ہربزرگ خاندان اپنی صفات حسنہ کی وجہ سے اپنے خاندان والوں کا فرماں روا اور بادشاہ ہے ‘ ہر گائوں کا نمبر دار اپنے گائوں کا فرماں روا اور بادشاہ ہے اور یہ نوع انسان کی ابتدائی زمانہ کی حکومت وسلطنت کے نمونے ہیں جو آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں‘ اور ہم ان میں کوئی نقص اور سقم نہیں نکال سکتے‘ ہاں اگر نقص اور سقم بتایا جاسکتا ہے تو اسی حالت میں جب کہ افراد خاندان میں سے غیر مستحق اور ناقابل شخص کو بزرگ خاندان مانا گیا‘ یا گائوں کا نمبردار‘ برادری کا چودھری‘ محلہ کا میر محلہ اس گائوں اس برادری‘ اس محلہ کا بہترین شخص نہ ہو۔ شخصیت اورجمہوریت انسانی نسل جہاں ایک طرف اشرف المخلوقات اور مخدوم کائنات ہے‘ دوسری طرف اس کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کسی ایک اعلیٰ اور طاقتور ہستی کو اپنا مرکز اور مقتدا بنا کر رہے اور یہی فطری تقاضا ہے جو اس کو توحید باری تعالیٰ کی طرف رہبری کرتا اور تمام معبودان باطلہ سے منحرف بنا کر اکیلے اللہ کی پرستش پر آمادہ کرتا ہے‘ شیطانی فریب کاریوں میں سب سے بڑی فریب کاری یہ تھی کہ انسان نے حکومت و سلطنت کے لیے قابلیت اور صفات حسنہ کی شرط کو فراموش کر کے وراثت اور نسب کے تعلق کو حکومت اور بادشاہی کے لیے بطور شرط لازم تسلیم کر لیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے شخصوں کو جو بادشاہت اور حکومت کے حق دار نہ تھے محض بادشاہ کی اولاد ہونے کے سبب بادشاہ بننے اور مستحق بادشاہت لوگوں کو ذلیل و خوار بنانے کا موقع ملنے لگا‘ نوع انسانی کی اسی غلطی نے دنیا میں بڑی بڑی خرابیاں اور ہنگامہ آرائیاں برپا کیں اور بنی آدم کو اپنی اس غلطی کے بڑے بڑے خمیازے بھگتنے پڑے۔ قرآن کریم نے نازل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مبعوث ہو کر دنیا کی اس عالمگیر گمراہی اور نوع انسانی کی اس عظیم الشان غلط روی کا علاج کیا اور جامع جمیع کمالات انسانیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خود حکومت کی فرمانروائی کر کے فرائض رسالت و نبوت کے علاوہ دینوی باشاہت و حکومت کا بھی ۱؎ ’’بے شک انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔‘‘ (النجم : ۵۳/۳۹) بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور نوع انسانی کو بتایا کہ بادشاہ کے فرائض کیا ہوتے ہیں اور اس کے اختیارات کی حدود کیا ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اولین فیض یافتہ اور بہترین تربیت حاصل کردہ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم کے موافق بہترین شخص یعنی مستحق حکومت اور قابل فرماں روائی انسان کا انتخاب کیا اور عملی طور پر پہلی مرتبہ یہ