تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
متعلق سرگوشیاں اور چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور بلوائیوں کو تو یہ فکر ہوئی‘ کہ اگر قصاص لیا گیا تو پھر ہماری خیر نہیں ہے اور ان لوگوں کو جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مظلوم سمجھتے اور بلوائیوں سے سخت نفرت رکھتے تھے ان کو اس بات کا یقین ہوا کہ یہ لوگ جنہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ظالمانہ طور پر شہید کیا ہے‘ اپنے کیفر کردار کو نہ پہنچیں گے اور مزے سے فاتحانہ گل چھڑے اڑاتے ہوئے پھریں گے‘ اس قسم کے خیالات کا لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جانا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے مضر تھا‘ مگر ان کے پاس اس کے لیے کوئی چارہ کار بھی نہ تھا اور وہ حالات موجودہ میں جب کہ پہلے ہی نظام حکومت درہم برہم ہو کر دارالخلافہ کی ہوا بگڑ چکی تھی کچھ کر بھی نہ سکتے تھے۔ بلوائیوں کی سرتابی بیعت خلافت کے تیسرے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ کوفہ و بصرہ و مصر وغیرہ ممالک اور دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے تمام اعراب واپس چلے جائیں اس حکم کو سن کر عبداللہ بن سبا اور اس کی جماعت کے لوگوں نے واپس جانے اور مدینہ کو خالی کرنے سے انکار کیا اور اکثر بلوائیوں نے ان کا اس انکار میں ساتھ دیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی یہ حقیقتاً سب سے پہلی فدفالی تھی‘ کہ ان کے حکم کو ان ہی لوگوں نے ماننے سے انکار کیا جو بظاہر اپنے آپ کو ان کا بڑا فدائی اور شیدائی ظاہر کرتے تھے۔ اس کے بعد سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ اور عرض کیا کہ آپ ہم کو بصرہ کوفہ کی طرف بھیج دیجئے‘ وہاں کے لوگوں کو چوں کہ ہم سے ایک گونہ عقیدت ہے‘ لہذا ہم وہاں جا کر لوگوں کے منتشر خیالات کو یکسو کر دیں گے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شبہ ہوا اور انہوں نے ان دونوں صاحبوں کو مدینہ سے باہر جانے کی ممانعت کر دی۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ و ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مفید مشورہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے تیسرے چوتھے ہی دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے تمام عاملوں اور والیوں کی معزولی کا فرمان لکھوایا اور ان والیوں اور عاملوں کی جگہ دوسرے لوگوں کا تقرر فرمایا۔ یہ سن کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جو بڑے مدبر و دور اندیش اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ اور دوسرے قریش کو جو مدینہ سے باہر جانے کی ممانعت کر دی ہے اور ان کو روک لیا ہے اس کا اثر یہ ہو گا کہ تمام قریش آپ کی خلافت کو اپنے لیے باعث تکلیف سمجھیں گے اور ان کو آپ کے ساتھ ہمدردی نہ رہے گی‘ دوسرے آپ نے عہد عثمانی کے عاملوں کو معزول کرنے میں عجلت سے کام لیا ہے‘ مناسب یہ ہے کہ آپ اب بھی اپنے روانہ کئے ہوئے عاملوں کو واپس بلا لیں اور ان ہی عاملوں کو اپنے اپنے علاقے میں مامور رہنے دیں اور ان سے صرف بیعت و اطاعت کا مطالبہ کریں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو کو سن کر اس کے تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا‘ اگلے دن جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے برادرعم