تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا اور فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ ! کیا تو باز نہ آئے گا‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ایمان لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سنتے ہی جوش مسرت میں بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور ساتھ ہی تمام صحابہ رضی اللہ عنھم نے جو اس وقت دار ارقم میں موجود تھے اس زور سے اللہ اکبر کہا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج گئیں‘ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کو بڑی تقویت حاصل ہو گئی۔۱؎ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے کے بعد سیدھے ابوجہل کے گھر پہنچے دروازہ پر دستک دی‘ وہ باہر آیا اور بہ خندہ پیشانی اہلاً و سہلاً و مرحباً کہا اور آنے کی وجہ دریافت کی‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰئے تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں‘ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول مانتا ہوں‘ یہ سنتے ہی ابوجہل جھلا کر اندر چلا گیا اور یہ بھی واپس چلے آئے مدعا ان کا یہ تھا کہ اس سب سے بڑے دشمن اسلام کو اپنے مسلمان ہونے کی خبر دے کر جلائوں۔۲؎ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمان ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم کو اب پوشیدہ طور پر گھروں میں نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں‘ بلکہ علانیہ خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنی چاہیں‘ چنانچہ قریش میں اول اول جو کوئی مانع ہوا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا مقابلہ کیا‘ پھر بلا روک ٹوک مسلمان خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے لگے اور اسلام مکہ میں علانیہ اور آشکار اطور پر ظاہر ہو گیا‘ یہ نبوت کے چھٹے سال کے آخری مہینے کا واقعہ ہے‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت ۳۳ سال کی تھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے وقت مکہ میں مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی ملک حبش میں جو مسلمان تھے وہ اس تعداد کے علاوہ تھے۔ قطع موالات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے سے قریش کو بڑا صدمہ پہنچا‘ ادھر مسلمان علانیہ خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنے لگے‘۳؎ بہت سے مسلمان نجاشی کے ملک میں جا چکے تھے جن پر قریش کا کوئی ۱؎ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے صرف تین دن بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۱۷۱ و ۱۷۲۔ ۳؎ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا‘ تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے۔ صحیحبخاری۔کتابفضائلاصحابالنبی صلی اللہ علیہ و سلم حدیث۳۶۸۴ زور نہیں چلتا تھا‘ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے مکہ کے مسلمانوں پر بھی وہ بلا خطرہ ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے۔۱؎ ان حالات کو دیکھ کر نبوت کے ساتویں سال کی ابتداء یعنی ماہ محرم میں قریش نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی‘ مسلمانوں کی روز افزوں جماعت کے خطرات سے قوم کو آگاہ کیا اور اس اندیشہ و خطرہ سے محفوظ رہنے کی تدبیر پر غور کیا گیا۔