تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سعد بن ابی وقاص کو لکھا کہ تم ایرانیوں کی کثرت افواج اور سازو سامان کی فراوانی دیکھ کر مطلق خائف و مضطر نہ ہونا‘ بلکہ خدائے تعالیٰ پر بھروسہ رکھو اور خدائے تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرتے رہو اور قبل از جنگ چند آدمیوں کی ایک سفارت یزدجرد شاہ ایران کے پاس بھیجو تاکہ وہ دربار ایران میں جا کر دعوت اسلام کے فرض سے سبکدوش ہوں‘ تاکہ شاہ فارس اگر دعوت اسلام کو قبول نہ کرے تو اس انکار کا وبال بھی اس پر پڑے‘ اس حکم کے پہنچنے پر سیدنا سعد بن ابی وقاص نے لشکر اسلام سے سمجھ دار خوش گفتار‘ وجیہ ‘ بہادر اور ذی حوصلہ افراد کو منتخب کر کے قادسیہ سے مدائن کی جانب روانہ کیا۔ اسلامی سفارت اس سفارت میں جو قادسیہ سے مدائن کی جانب روانہ ہوئے مندرجہ ذیل حضرات شامل تھے‘ نعمان بن مقرن‘ قیس بن زرارہ‘ اشعث بن قیس ‘ فرات بن حبان‘ عاصم بن عمرو‘ عمروبن معدیکرب‘ مغیرہ بن شعبہ‘ معنی بن حارثہ‘ عطارد بن حاجب‘ بشیر بن ابی رہم‘ حنظلہ بن الربیع ‘ عدی بن سہیل رضی اللہ عنھم ۔ یہ تمام حضرات اپنے عربی گھوڑوں پر سوار راستے میں رستم کے لشکر کو چھوڑتے ہوئے سیدھے مدائن پہنچے‘ وہاں یزدجرد نے ان سفیروں کے آنے کی خبر سن کر دربار کو خوب آراستہ کیا‘ جب یہ اسلامی سفراء دربار میں اپنی سادہ و سپاہیانہ وضع کے ساتھ داخل ہوئے تو تمام دربار ان کو دیکھ کر حیران رہ گیا‘ اول یزدجرد نے ان سے معمولی سوالات کئے اور ان کے باصواب جواب پا کر اس نے دریافت کیا کہ تم لوگوں کو ہمارے مقابلہ کی جرات کیسے ہوئی اور تم کس طرح یہ بات بھول گئے کہ تمہاری قوم دنیا میں ذلیل و احمق سمجھی جاتی ہے‘ کیا تم اس بات کو بھی بھول گئے ہو کہ جب کبھی تم لوگوں سے کوئی سرکشی یا بغاوت دیکھی جاتی تھی تو ہم اپنی سرحد کے عاملوں اور صوبیداروں کو حکم دے دیا کرتے تھے کہ تم کو سیدھا کر دیں‘ چنانچہ وہ تم کو ٹھیک بنا دیا کرتے تھے۔ یہ سن کر سیدنا نعمان بن مقرن نے جواب دیا کہ ہم دنیا سے بت پرستی اور شرک مٹانے کی کوشش کرتے اور تمام دنیا کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہی کے ذریعہ انسان سعادت انسانی حاصل کر سکتا ہے‘ اگر کوئی شخص اسلام کو قبول نہیں کرتا تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی حفاظت و سرپرستی میں سپرد کر دے اور جزیہ ادا کرے‘ لیکن اگر وہ اسلام اور ادائے جزیہ دونوں باتوں سے انکار کرتا ہے تو اس کے اور ہمارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔ قیس بن زرارہ کی تقریر یزدجرد اس گفتگو کو سن کر برافروختہ ہوا‘ لیکن ضبط کر کے بولا کہ تم لوگ محض وحشی اور جنگلی لوگ ہو‘ تمہاری تعداد بھی کم ہے‘ تم ہمارے ملک کے کسی حصہ کی طمع نہ کرو‘ ہم تم پر اس قدر احسان کر سکتے ہیں کہ تم کو کھانے کے لیے غلہ اور پہننے کے لیے کپڑا دے دیں‘ اور تمہارے اوپر کوئی ایسا حاکم مقرر کر دیں‘ جو تمہارے ساتھ نرمی کا برتائو کرے‘ اس بات کو سن کر سیدنا قیس بن زرارہ فوراً آگے بڑھے اور کہا کہ یہ لوگ جو تمہارے سامنے موجود ہیں‘ رئوساء و شرفا عرب ہیں اور شرفائے عرب ایسی لغو باتوں کا جواب دینے سے شرم کرتے ہیں‘ میں تمہاری باتوں کا جواب دیتا ہوں اور یہ سب میری باتوں کی تصدیق کرتے جائیں گے‘ سنو! تم نے جو عرب کی حالت اور