تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عتبہ جب اپنی تقریر ختم کر چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواباً سورہ حم سجدہ تلاوت فرمانی شروع کی‘ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت پر پہنچے کہ {فَاِِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ} ۲؎ تو عتبہ کا رنگ فق ہو گیا‘ اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا کہ ایسا نہ کہو‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا اور سجدہ سے فارغ ہو کر کہا کہ تم نے میرا جواب سن لیا۔ ۱؎ اندازہ کیجیے کفار و مشرکین مکہ کی ذہنی خباثت کا کہ جس شخص کو وہ اپنے میں سے سب سے شریف‘ دیانت دار‘ امین اور صادق کہتے اور سمجھتے تھے‘ اسی نے جب ان کو ایک اکیلے معبود کی بندگی کی دعوت دی تو وہ اس پر فتنہ پیدا کرنے کا الزام عائد کرنے لگ گئے‘ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کو فتنہ سے نکال کر امن و سکون کی لافانی زندگی کی دعوت و ترغیب دے رہے تھے۔ دراصل تقریباً ہر قوم نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ۲؎ ’’پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو کہہ دو کہ میں تم کو (ایسی) چنگھاڑ (کے عذاب) سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر چنگھاڑ (کا عذاب آیا تھا)۔‘‘ (حم السجدۃ ۴۱ : ۱۳) عتبہ وہاں سے اٹھا اور قریش کے پاس آ کر کہا کہ یہ میری رائے ہے کہ اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور تم بالکل غیر جانبدار ہو جائو‘ اگریہ ملک عرب پر غالب آ گیا تو چونکہ یہ تمہارا بھائی ہے اس کی کامیابی تمہاری کامیابی ہو گی اور اگر یہ تباہ ہو گیا تو تم سستے چھوٹ جائو گے‘یہ سن کر قریش نے عتبہ سے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے تم پر بھی جادو کر دیا ہے‘ عتبہ نے کہا جو تمہارا جی چاہے کرو اور کہو میں نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔۱؎ ابوطالب کی خدمت میں قریش کا وفد جب عتبہ کی کوشش ناکام ثابت ہوئی تو عتبہ شیبہ‘ ابوالبختری‘ اسود‘ ولید‘ ابوجہل وغیرہ اشخاص کا ایک وفد ابوطالب کی خدمت میں پہنچا اور شکایت کی کہ تمہارا بھتیجا ہمارے بتوں کو برا کہنے سے باز نہیں آنا چاہتا تم اس کو سمجھائو اور اس حرکت سے باز رکھو۔ ابوطالب نے اس وفد کو معقول جواب دئیے اور ان کو توجہ دلائی کہ تم لوگ بھی ایذا سانیوں میں حد سے بڑھے جاتے ہو۔۲؎ اس روز تو یہ لوگ ابوطالب کے پاس سے اٹھ کرچلے آئے لیکن دوسرے روز مشورہ کر کے پھر پہنچے۔ ان کے آنے پر ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے مکان پر ان کے سامنے بلوایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں گفتگو شروع ہو گئی‘ قریش کے سرداروں نے وہی باتیں اس مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پھر پیش کیں جو اس سے پہلے عتبہ تنہا حاضر ہو کر پیش کرچکا تھا‘ انہوں نے کہا کہ : اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت بعض ضروری باتوں کے لیے بلوایا ہے‘ واللہ کوئی شخص اپنی قوم پر اتنی مشکلات نہیں لایا ہو گا جس قدر مشکلات میں تم نے قوم کو مبتلا کردیا ہے‘ اگر تم اپنے اس نئے دین کے ذریعہ مال و دولت جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم اتنا مال جمع کئے دیتے ہیں کہ کسی دوسرے کے پاس نہ نکلے۔ اگر شرف و عزت کی خواہش ہے تو ہم ابھی تم کو اپنا سردار تسلیم کئے لیتے ہیں‘ اگر حکومت و سلطنت کی خواہش ہے تو تم کو ملک عرب کا بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں‘ اگر تم کو کوئی جن یا آسیب دکھائی دیتا ہے اور اس کے اثر سے تم ایسی ایسی باتیں کرتے ہو تو ہم اپنے کاہنوں اور حکیموں کے ذریعے علاج کرانے کو تیار