تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تیسرا بولا میں تجھ سے کلام کرنا نہیں چاہتا‘ کیونکہ اگر تو اپنے قول کے موافق اللہ تعالیٰ کا رسول ہے تو تیرے کلام کا رد کرنا خطرناک بات ہے اور اگر تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے تو مناسب نہیں کہ ایسے شخص سے کلام کیا جائے۔ ۱؎ طائف‘ مکہ سے تقریباً ۱۴۰ کلومیٹر دور ہے۔ اہل طائف کی گستاخیاں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو عبد یا لیل اور اس کے بھائیوں کی طرف سے مایوسی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے کہا کہ اچھا آپ اپنے ان خیالات کو اپنی ہی ذات تک محدود رکھیں‘ اور دوسروں تک ان باتوں کی اشاعت نہ کریں‘ وہیں سے اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم طائف کے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں مصروف ہوئے لیکن عبد یالیل اور اس کے بھائیوں نے اپنے غلاموں اور شہر کے لڑکوں اور اوباشوں کو آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے لگا دیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جہاں جہاں جاتے بدمعاشوں‘ اوباشوں اور لڑکوں کا ایک انبوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے گالیاں دیتا اور ڈھیلے مارتا ہوا ہو لیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وفادار خادم سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بچانے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کرنے میں مصروف تھے‘ پتھروں اور ڈھیلوں کی بارش میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ دونوں زخمی ہو گئے‘ باہر کو چلے تو بھی اوباشان طائف کا ہجوم گالیاں دیتا اور پتھر مارتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ساتھ تھا‘ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم طائف سے باہر نکل آئے مگر بدمعاشوں کے ہجوم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیچھا نہ چھوڑا‘ ان بدمعاشوں کے ہجوم نے تین میل تک شہر سے باہر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تعاقب کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پنڈلیاں پتھر کی بارش سے لہولہان ہو گئیں اور اس قدر خون بہا کہ جوتیوں میں خون بھر گیا اسی طرح تمام جسم زخموں سے لہولہان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہے کہ میں طائف سے تین میل تک بھاگا اور مجھے کچھ ہوش نہ تھا کہ کہاں سے آ رہا ہوں اور کدھر جا رہا ہوں‘ طائف سے تین میل کے فاصلہ پر مکہ کے ایک رئیس عتبہ بن ربیعہ کا باغ تھا‘ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس باغ میں آ کر پناہ لی اور طائف کے اوباشوں کا ہجوم طائف کی طرف واپس ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس باغ کی دیوار کے سایہ میں بیٹھ گئے اور اپنی بے کسی و بے چارگی دیکھ کر جناب الہی سے دعا کی کہ الہی بے کسوں اور ضعیفوں کا توہی محافظ و نگہبان ہے اور میں تجھی سے مدد کا خواستگار ہوں۔۱؎ عتبہ بن ربیعہ اس وقت باغ میں موجود تھا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دور سے اس حالت میں دیکھا تو عربی شرافت اور مسافر نوازی کے تقاضے سے اپنے غلام عداس کے ہاتھ ایک رکابی میں انگور کے خوشے رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجوایا‘ یہ غلام نینوا کا باشندہ عیسائی تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ انگور کھائے اور عداس کو اسلام کی تبلیغ فرمائی‘ عداس کے قلب پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں کا اثر ہوا‘ اور اس نے آپ ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا قدرے طویل ہے جو الشیخ صفی الرحمن مبارک پوری نے