تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی کوئی صورت پیدا ہو جائے‘ یہ سن کر سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ نے آمادگی ظاہر کی اور فوراً اونٹ پر سوار ہو گئیں‘ آپ کے ہودج پر لوگوں نے احتیاط کی غرض سے زرہیں پھیلا دیں‘ اور اونٹ کو ایسے موقع پر لا کھڑا کر دیا جہاں سے لڑائی کا ہنگامہ خوب نظر آتا تھا‘ مگر توقع کے خلاف بجائے اس کے کہ لڑائی کم ہوتی اور رکتی اس اونٹ یعنی ام المومنین رضی اللہ عنہ کی سواری کو دیکھ کر لڑائی میں اور بھی زیادہ اشتعال و اشتداد پیدا ہو گیا۔ لڑنے والوں نے یہ سمجھا کہ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ بحیثیت سپہ سالار میدان جنگ میں تشریف لائی ہیں‘ اور ہم کو زیادہ بہادری کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔ ادھر سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل جمل کی شدت و چیرہ دستی دیکھ کر خود مسلح ہو کر حملہ آور ہونا اور اپنی فوج کو ترغیب جنگ دینا ضروری سمجھا‘ لڑائی کو شروع ہوئے تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے پائوں میں ایک تیر لگا اور تمام موزہ خون سے بھر گیا‘ اس تیر کا زخم نہایت اذیت رساں تھا‘ اور خون کسی طرح نہ رکتا تھا‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی یہ حالت سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے دیکھی جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھے‘ اور فرمایا کہ اے ابومحمد رضی اللہ عنہ ! آپ کا زخم بہت خطرناک ہے‘ آپ فوراً بصرہ میں واپس تشریف لے جائیں‘ چنانچہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بصرہ کی طرف متوجہ ہوئے‘ بصرہ میں داخل ہوتے ہی وہ زخم کے صدمہ سے بے ہوش ہو گئے اور وہاں پہنچنے کے بعد ہی انتقال کر گئے‘ اور وہیں مدفون ہوئے۔ مروان بن الحکم اس لڑائی میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھا‘ جب لڑائی شروع ہو گئی تو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ میں بھی علی رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ہرگز نہ کروں گا‘ اسی خیال سے وہ لشکر سے الگ ہو کر ایک طرف کھڑے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی باتوں پر غور کر رہے تھے‘ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گفتگو اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ والی پیشگوئی کو یاد کر کے اس لڑائی سے بالکل جدا اور غیر جانب دار ہونا چاہتے تھے‘ اس حالت میں مروان بن الحکم نے ان کو دیکھا اور وہ سمجھ گیا کہ یہ لڑائی میں کوئی حصہ لینا نہیں چاہتے‘ اور صاف بچ کر نکل جانا چاہتے ہیں‘ چنانچہ اس نے اپنے غلام کو اشارہ کیا اس نے مروان کے چہرے پر چادر ڈال دی‘ مروان نے چادر سے اپنا منہ چھپا کر کہ کوئی شناخت نہ کرے ایک زہر آلود تیر کمان میں جوڑ کر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو نشانہ بنایا‘ یہ تیر سیدنا طلحہ کے پائوں کو زخمی کر کے گھوڑے کے پیٹ میں لگا اور گھوڑا سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو لیے ہوئے گرا‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے غلام کو جو اتفاقاً اس طرف سامنے آ گیا تھا بلایا‘ اور اس کے ہاتھ پر یا سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جو وہاں آ گئے تھے نیابتاً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اس تجدید بیعت کے بعد بصرہ میں آ کر انتقال فرمایا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی اور ان کی بہت تعریف فرماتے اور افسوس کرتے رہے۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی صلح پسندی جب لڑائی شروع ہو گئی‘ تو سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ جو پہلے ہی سے ارادہ