تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرمایا۔ یہ چھوٹا سا قافلہ مسلمان ہو کر یہیں سے مدینہ کو لوٹ گیا اور وعدہ کر گیا کہ ہم اپنی قوم میں جا کر اسلام کی دعوت و تبلیغ شروع کریں گے‘ چنانچہ انہوں نے جاتے ہی تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا‘ اور مدینہ کے ہر گلی کوچہ میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔۱؎ بیعت عقبہ اولیٰ ۱۱ نبوی تو ختم ہی ہو چکا تھا‘ ۱۲ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم بھی آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ میں اسی طرح گذرا جیسا کہ ۱۱ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم گذرا تھا‘ قریش کی مخالفت بدستور ترقی پذیر تھی‘ ساتھ ہی آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ پورا سال سخت امید و بیم کی حالت میں گذرا‘ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مدینہ کے ان چھ مسلمانوں کا بہت خیال تھا جو تبلیغ اسلام کا وعدہ کر گئے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس عرصہ میں کوئی خبر نہیں معلوم ہوئی کہ مدینہ میں تبلیغ اسلام کا کیا نتیجہ نکلا۔ آخر ۱۲ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری مہینہ ذی الحجہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقام منیٰ کے پاس اسی مقام عقبہ میں جا جا کر یثرب کے قافلہ کی تلاش کرنے لگے‘ اتفاقاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ان لوگوں پر پڑی جو پہلے سال بیعت کر گئے تھے‘ انہوں نے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا اور بڑے شوق سے بڑھ کر ملے‘ اب کی مرتبہ یہ کل بارہ آدمی تھے‘ ان میں کچھ تو وہی پچھلے سال کے مسلمان تھے‘ کچھ نئے آدمی تھے جو اوس و خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے‘ ان بارہ بزرگوں کے نام یہ تھے‘ (۱)ابوامامہ رضی اللہ عنہ ‘ (۲) عوف بن حارث رضی اللہ عنہ بن رفاعہ‘ (۳) رافع بن مالک بن العجلان‘ (۴) قطبہ بن عامر بن حدبہ‘ (۵)عقبہ بن عامر۔ یہ پانچ شخص تو پچھلے سال کے چھ مسلمانوں میںسے تھے‘ باقی نئے سات یہ تھے (۱)معاذ بن حارث برادر عوف بن حارث‘ (۲) ذکوان بن عبدقیس بن خالد‘ (۳) خالد بن مخلد بن عامر بن زریق‘ (۴)عبادہ بن صامت بن قیس ( جو جنیب سے تھے) (۵) عباس بن عبادہ بن نضلہ۔ یہ دس حضرات قبلیہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے‘ (۶) ابوالہثیم بن التیہان (بنو عبدالاشہل سے تھے‘) (۷) عویم بن ساعدہ آخر کے دونوں بزرگ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے۔ ان بارہ حضرات نے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی‘ یہ بیعت بیعت عقبہ اولیٰ گویا نتیجہ تھا ان چھ سابقہ مدنی مسلمانوں کو تبلیغ کا‘ رخصت ہوتے وقت اس مسلم جماعت نے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ۱؎ سیرت ابن ہشام ‘ ص ۲۱۱ و ۲۱۲۔ درخواست کی کہ ہمارے ساتھ ایک قاری یعنی مبلغ بھیجا جائے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ روانہ کر دیا‘ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے مدینہ پہنچ کر اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر قیام کیا‘ اور اسی مکان کو مرکز تبلیغ بنا کر تبلیغ اسلام کے کام میں ہمہ تن مصروف ہو گئے‘ عقبہ اولیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اقرار کرائے تھے۔ (۱) ہم اللہ تعالیٰ واحد کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے