تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بن عامر حاکم بصرہ اپنا لشکر لے کر فارس کی طرف بڑھے ان کے مقدمۃ الجیش کی سرداری عثمان بن ابی العاص کے سپرد تھی عبداللہ بن عامر تو اصطخر کی طرف گئے اور ہرم بن حیان کو جور کا محاصرہ کرنے کے لیے روانہ کیا‘ اصطخر کے نواح میں ایرانیوں نے جمعیت کثیر کے ساتھ بڑی بہادری و پامردی سے اسلامی لشکر کا مقابلہ کیا‘ بڑی خوفناک اور خوں ریز جنگ ہوئی بالآخر ایرانی مسلمانوں کے مقابلہ سے بھاگے‘ مسلمانوں نے اصطخر پر قبضہ کیا اور باغیوں کے قتل و غارت میں کمی نہ کی۔۔۔ ہرم بن حیان کو جور کا محاصرہ کئے ہوئے ایک مدت گذر چکی تھی‘ ہرم بن حیان دن بھر روزہ رکھتے اور دشمنوں سے لڑتے‘ شام کو افطار کر کے نماز میں مصروف ہو جاتے‘ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ افطار کے بعد ان کو کھانے کے لیے روٹی نہ ملی‘ انہوں نے اگلے دن اس حالت میں روزہ رکھا‘ اس روز بھی کھانا نہ ملا‘ غرض اسی طرح ان کو ایک ہفتہ ہو گیا کہ روزہ پر روزہ رکھتے تھے‘ جب ضعف بہت بڑھ گیا تو انہوں نے اپنے خادم سے کہا کہ بیٹے تجھ کو کیا ہو گیا ہے کہ میں ایک ہفتے سے پانی کے ساتھ روزہ افطار کر کے روزہ پر روزہ رکھ رہا ہوں اور تو مجھ کو کھانے کے لیے روٹی نہیں دیتا‘ خادم نے کہا میرے سردار! میں روزانہ آپ کے لیے روٹی پکا کر جاتا ہوں‘ تعجب ہے کہ آپ کو نہیں ملتی‘ اگلے روز خادم نے روٹی پکا کر حسب معمول رکھی اور خود گھات میں بیٹھ کر روٹی کی نگرانی کرنے لگا کہ دیکھوں کون آ کر روٹی لے جاتا ہے‘ کیا دیکھتا ہے کہ شہر کی طرف سے ایک کتا آیا اور روٹی اٹھا کر چل دیا‘ خادم بھی آہستہ آہستہ سے اٹھ کر اس کتے کے پیچھے ہو لیا‘ کتا روٹی لیے ہوئے شہر پناہ کی طرف گیا اور ایک بد رو کے راستے شہر میں داخل ہو گیا۔ خادم یہ دیکھ کر واپس لوٹا اور ہرم بن حیان کی خدمت میں تمام واقعہ عرض کیا‘ ہرم بن حیان نے اس کو تائید غیبی سمجھا اور چند بہادر آدمیوں کو لے کر رات کے وقت اسی بدرو کے راستے شہر کے اندر داخل ہو گئے اور پاسبانوں کو قتل کر کے فوراً شہر کا دروازہ کھول دیا‘ اسلامی فوج نے شہر میں داخل ہو کر شہر کو فتح کیا اور اس طرح بہ آسانی جور پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا‘ مسلمانوں نے یہاں یعنی شہر جور میں بھی اور اصطخر میں بھی باغیوں کو سخت سزائیں دے کر آئندہ کے لیے بغاوت کا سدباب کیا‘ اس فتح کی خبر مسلمانوں نے مدینہ منورہ کو بھیجی اور آئندہ کے لیے خلیفہ وقت سے ہدایات طلب کیں۔ ۲۹ ھ کا حج سیدنا عثمان غنی مدینہ منورہ سے مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے ساتھ حج بیت اللہ کے ارادے سے روانہ ہوئے‘ منیٰ میں پہنچ کر حکم دیا کہ خیمہ نصب کریں اور حاجیوں کو جمع کر کے ان میں ضیافت کریں‘ لوگوں نے اس بات کو بدعت سمجھ کر ناپسند کیا‘ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صدیق و فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ اسی سفر میں قبیلہ جہنیہ کی ایک عورت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کی گئی‘ یہ عورت پہلے بیوہ تھی‘ پھر اس نے عقد ثانی کیا‘ اور بعد نکاح صرف چھ مہینے گذرنے پر اس کے لڑکا پیدا ہوا‘ سیدنا عثمان نے اس عورت پر رجم کرنے کا حکم دیا‘ جب اس حکم کی خبر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ قرآن مجید میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے