تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اشتر‘ اشتر کے خاص خاص احباب‘ علیا بن الہیتم سالم بن ثعلبہ شریح بن اونی وغیرہم بلوائی سردار شریک ہوئے‘ اور آپس میں کہنے لگے کہ اب تک طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ قصاص کے خواہاں تھے‘ لیکن اب تو امیر المومنین رضی اللہ عنہ بھی ان ہی کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں‘ آج ہم کو جدا ہونے کا حکم مل چکا ہے‘ اگر آپس میں ان کی صلح ہو گئی تو متفق ہو جانے کے بعد یہ ہم سے ضرور قصاص لیں گے اور ہم سب کو سزا دیں گے۔ اشتر نے کہا‘ حقیقت یہ ہے کہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہ ہوں یا علی رضی اللہ عنہ ہوں‘ ہمارے متعلق تو سب کی رائے ایک ہی ہے‘ اب جو یہ صلح کر لیں گے تو یقینا ہمارے خون پر ہی صلح کریں گے‘ لہذا میرے نزدیک تو مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ تینوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا دیں اس کے بعد خود بخود امن و سکون پیدا ہو جائے گا۔ عبداللہ بن سبا نے جو اس مجلس کا پریذیڈنٹ بنا ہوا تھا کہا کہ تم لوگوں کی تعداد بہت کم ہے‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اس وقت بیس ہزار کا لشکر موجود ہے‘ اسی طرح بصرہ میں طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بھی تیس ہزار سے فوج کم نہیں ہے‘ ہمارے لیے اپنے مقصد کا پورا کرنا سخت دشوار ہے۔ سالم بن ثعلبہ بولا کہ ہم کو صلح ہو جانے تک کہیں الگ اور دور چلے جانا چاہیے‘ شریح نے بھی اسی رائے سے اتفاق ظاہر کیا‘ لیکن عبداللہ بن سبا بولا کہ یہ رائے بھی کم زور اور غیر مفید ہے‘ اس کے بعد ہر شخص اپنی اپنی رائے بیان کرتا رہا اور کوئی فیصلہ نہ ہوا‘ آخر کار سب نے عبداللہ بن سبا سے کہا کہ آپ اپنی رائے کا اظہار کریں‘ ممکن ہے کہ سب اسی پر متفق ہو جائیں‘ عبداللہ بن سبا نے کہا کہ بھائیو! ہم سب کے لیے مناسب یہی ہے کہ سب کے سب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ملے جلے رہیں اور ان کے لشکر سے جدا نہ ہوں‘ بالفرض اگر وہ جدا بھی کر دیں اور ہم کو نکال بھی دیں تو ہم ان کے لشکر کے قریب ہی رہیں‘ زیادہ فاصلہ اختیار نہ کریں اور کہہ دیں کہ اس لیے ہم آپ سے قریب رہنا چاہتے ہیں کہ مبادا صلح نہ ہو اور لڑائی چھڑ جائے تو ہم بروقت شریک جنگ ہو کر آپ کی امداد کر سکیں‘ شریک لشکر یا قریب لشکر رہ کر ہم کو کوشش کرنی چاہیے کہ دونوں لشکر جانبین سے جب ایک دوسرے کے قریب ہوں تو کسی صورت سے لڑائی چھڑ جائے اور صلح نہ ہونے پائے‘ اور یہ کچھ مشکل کام نہیں ہے‘ جس وقت فریقین آپس میں لڑ پڑے‘ تو ہمارے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا۔ جنگ جمل صبح اٹھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوچ کا حکم دیا‘ بلوائیوں کا لشکر جو مدینہ سے آپ کے ساتھ تھا‘ شریک لشکر رہا‘ ان کا ایک حصہ الگ ہو کر لشکر کے قریب قریب رہا اور ایک حصہ لشکر میں ملا جا رہا‘ راستے میں بکربن وائل اور عبدالقیس وغیرہ قبائل بھی لشکر علی رضی اللہ عنہ میں شریک ہو گئے‘ بصرہ کے قریب پہنچ کر مقام قصر عبیداللہ کے میدان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ خیمہ زن ہوئے۔ ادھر سے سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بھی بمعہ لشکر آ کر اسی میدان میں فروکش ہوئے‘ تین روز تک دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلہ خاموش پڑے رہے‘ اس عرصہ میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بعض ہمرائیوں نے کہا کہ ہم کو لڑائی شروع کر دینی چاہیے‘ سیدنا زبیر رضی