تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کیا کہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ لوگوں نے قرآن کو حکم تسلیم کر لیا اور لڑائی بند ہو گئی‘ اب اگر آپ اجازت دیں تو میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان کا منشائے دلی معلوم کروں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اجازت دی‘ وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ تم نے قرآن شریف کو کس غرض سے نیزوں پر بلند کیا تھا‘ انہوں نے جواب دیا ہم اور تم دونوں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی طرف رجوع کریں ایک شخص کو ہم اپنی طرف سے منتخب کریں اور ایک کو تم اپنی طرف سے مقرر کر دو‘ ان دونوں سے حلف لیا جائے کہ وہ قرآن مجید کے موافق فیصلہ کریں گے‘ اس کے بعد وہ جو فیصلہ کریں‘ اس پر ہم تم دونوں راضی ہو جائیں۔ اشعث بن قیس یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں واپس آئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جو کچھ سنا تھا وہ سب بیان کر دیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اردگرد جس قدر لوگ موجود تھے‘ یہ سن کر ان سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم اس بات پر راضی ہیں اور ایسے فیصلہ کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام سے دریافت کیا گیا کہ تم اپنی طرف سے کس کو حکم منتخب کرتے ہو‘ انہوں نے کہا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو‘ اب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں یہ مسئلہ پیش ہوا کہ ہماری طرف سے کون حکم مقرر کر دیا جائے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو پسند کرتا ہوں‘ ان کے اہل مجلس نے کہا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے رشتہ دار ہیں ہم ایسے شخص کو حکم مقرر کرنا چاہتے ہیں جس کا آپ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے یکساں تعلق ہو‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا تم بتائو کس کو پسند کرتے ہو‘ لوگوں نے کہا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بہت مناسب سمجھتے ہیں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ثقہ نہیں سمجھتا‘ تم اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کو میرا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے انتخاب نہیں کرتے ہو تو مالک اشتر کو مقرر کر دو وہ میرا رشتہ دار بھی نہیں ہے‘ لوگوں نے کہا کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت ملی ہے‘ وہ صحابی ہیں‘ اور مالک اشتر اس شرف سے محروم ہے‘ لہذا ہم اس کو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔ آخر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اشعری رضی اللہ عنہ حکم تجویز ہو گئے۔ ابھی یہ مجلس برپا ہی تھی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ اقرار نامہ لکھنے کے لیے آ گئے۔ اقرار نامہ کی تحریر اور میدان جنگ سے واپسی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی کی خدمت میں حاضر ہو کر اقرار نامہ تحریر کرنے کے لیے عرض کیا‘ چنانچہ اسی وقت مندرجہ ذیل اقرار نامہ لکھا گیا۔ یہ اقرار نامہ ہے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان۔ علی بن ابی طالب نے اہل کوفہ اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو ان کے ساتھ ہیں ایک منصف یا پنچ مقرر کیا ہے‘ اور اسی طرح معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اہل شام اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو ان کے ساتھ ہیں ایک پنچ مقرر کر دیا ہے‘ ہم اللہ