تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
داخل ہوئے‘ اس کو اندر سے صاف کیا۔ اس کے اندر جہاں جہاں سوراخ تھے ان کو ٹٹول ٹٹول کر ان میں اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر رکھے‘ اس طرح تمام روزن بند کر کے پھر آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اندر لے گئے‘ یہ دونوں آفتاب و ماہتاب کامل تین دن اور تین رات غار میں چھپے رہے‘ قریش کے بڑے بڑے سردار انعامی اشتہار مشتہر کر کے خود بھی سراغ رسانوں کو ہمراہ لے کر نقش قدم کا سراغ لیتے ہوئے غار ثور کے منہ تک پہنچ گئے۔
ان کے ہمرا ہی سراغ رسانوں نے کہا کہ بس اس سے آگے سراغ نہیں چلتا یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہیں کسی جگہ پوشیدہ ہے‘ یا یہاں سے آسمان پر اڑ گیا ہے‘ کسی نے کہا کہ اس غار کے اندر بھی تو جا کر دیکھو‘ دوسرا بولا ایسے تاریک اور خطرناک غار میں انسان داخل نہیں ہو سکتا‘ ہم اسے مدت سے اسی طرح دیکھتے آئے ہیں‘ تیسرا بولا کہ دیکھو اس کے منہ پر مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے‘ اگر کوئی شخص اس کے اندر داخل ہوتا تو یہ جالا سلامت نہیں رہ سکتا تھا‘ چوتھے نے کہا وہ دیکھو کبوتر اڑا ہے اور انڈے نظر آ رہے ہیں جن کو بیٹھا ہوا سہہ رہا تھا اس کے بعد سب کو اطمینان ہو گیا اور کوئی اس غار کی طرف نہ بڑھا۔
یہ کفار غار کے اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ اندر سے ان کے پائوں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو نظر آ رہے تھے اور ان کی باتیں کرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی‘ ایسی خطرناک حالت میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور! کفار تو یہ پہنچ گئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ {لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا} (التوبۃ : ۹/۔۴) (مطلق خوف نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے) پھر فرمایا:۔ وما ظنک باثنین اللٰہ ثالثھما (تو نے ان دونوں کو کیا سمجھا ہے‘ جن کے ساتھ تیسرا اللہ
۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۲۴۲‘ ۲۴۴۔
آفتاب و ماہتاب غار ثور میں
تعالیٰ ہے)‘ ۱؎ کفار اپنی تلاش و جستجو میں خائب و خاسر اور نامراد ہو کر واپس چلے گئے‘ رفتہ رفتہ تین دن کے بعد تھک کر اور مایوس ہو کر بیٹھ رہے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو پہلے ہی سے ہدایت کر دی تھی کہ کفار کے تمام حالات اور دن بھر کی تمام کاروائیوں سے رات کے وقت آ کر مطلع کر دیا کریں‘ اسی طرح اپنے غلام عامر بن فہیرہ کو حکم دے دیا تھا کہ بکریوں کا ریوڑ دن بھر ادھر ادھر چراتے پھرا کریں‘ اور رات کے وقت اس ریوڑ کو غار ثور کے قریب چراتے ہوئے لے آیا کریں‘ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا کے سپرد یہ خدمت تھی کہ کھانا تیار کر کے رات کے وقت احتیاط کے ساتھ غار نشینوں کو پہنچا دیا کریں‘ عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اسماء رضی اللہ عنھا دونوں بھائی بہن اپنے اپنے فرائض انجام دے کر واپس چلے جاتے تو عامر بن فہیرہ اپنی بکریوں کا دودھ دھو کر اور غار نشینوں کو پلا کر بکریوں کا ریوڑ کچھ رات گئے لے کر مکہ میں داخل ہوتے اور اس طرح عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اسماء رضی اللہ عنھا کے قدموں کے نشان ریوڑ سے مٹ جاتے۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ مکہ والوں کا جوش خروش سرد پڑ گیا‘ تو عبداللہ بن اریقط کے