تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اولیٰ یعنی عرب بائدہ کے حالات بہت ہی کم معلوم ہو سکے ہیں۔ اور ان سے یہ اندازہ نہیں ہو سکتا کہ عرب بائدہ کی اخلاقی حالت اپنے ہم عصر اقوام عالم کے مقابلہ میںکیا تھی۔ تاہم یہ قیاس ضرور کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ابتدائی زمانہ میں جب کہ ربع مسکون پر انسانی آبادی تعداد نفوس کے اعتبار سے بہت کم ہو گی‘ عموماً سب کی اخلاقی حالت ایک ہی درجہ کی ہو گی۔ بنی اسماعیل کے عروج و ترقی سے پیشتر عرب بائدہ کے بعد قحطانی عربوں کے دور دورہ میں عرب کے اندر بہت سی حکومتوں اور سلطنتوں کا پتہ چلتا ہے لیکن کسی زمانہ میں بھی کوئی ایک سلطنت تمام ملک عرب پر قابض و متصرف نہیں ہوئی‘ صوبہ صوبہ میں علیحدہ علیحدہ حکومتیں قائم تھیں اور ان میں بعض زیادہ مشہور بھی تھیں‘ تاہم ملک کے اندر آزاد گروہ خانہ بدوشی کے عالم میں اونٹوں پر اپنے خیمے اور چھولداریاں لادے ہوئے سفر کرتے اورپھرتے ہوئے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ سبزہ و پانی ضروریات زندگی کی نایابی نے اہل عرب کو ہمیشہ آوارہ و سرگرداں اور اس مدامی سفر نے ان کو ہمیشہ جفاکش اورمستعد رکھا‘ ضروریات زندگی کی کمی نے ان کے تمدن کو ترقی کرنے نہیں دی ۱؎ یہاں محترم مؤلف کی عبارت غیر واضح ہے۔ تاہم سیاق کلام سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حرب نے عبدالمطلب کے اقتدار کے خلاف آواز اٹھائی‘ واللہ اعلم سبحانہ و تعالیٰ۔ _ اور ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں اصلاح ‘ اور قابل تذکرہ تغیر واقع نہ ہوا‘ مشاغل کی کمی اورمناظر کی یک رنگی نے ان کی فرصتوں کو بہت وسیع اور فارغ اوقات کو بہت طویل کر دیا تھا‘ ریگستانوں کی وسعت و کثرت‘ پیدا وار ملکی اور قیمتی اشیاء کی ناپیدگی‘ آبادیوں اور شہروں کی قلت نے کسی بیرونی فتح مند قوم اور ملک گیر بادشاہ کو ملک عرب کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا‘ سیاحوںاور تاجروں کے متوجہ کر لینے کا بھی کوئی سامان اس جزیرہ نما میں نہ تھا‘ لہذا غیر قوموں اور دنیا کے دوسرے ملکوں کی ترقیات سے اہل عرب عموماً بے خبر رہے‘ اور کسی بیرونی ملک اور بیرونی قوم کے تمدن اخلاق اور معاشرت سے اہل عرب متاثر نہ ہو سکے۔ خواجہ حالی نے عرب کی نسبت بالکل صحیح لکھا ہے۔ نہ وہ غیر قوموں پہ چڑھ کر گیا تھا! نہ اس پر کوئی غیر فرماں روا تھا۔ مفاخرت ان حالات میں ظاہر ہے کہ اہل عرب کے اندر دو ہی چیزیں خوب ترقی کر سکتی تھیں۔ ایک شعر گوئی جس کے لیے وسیع فرصتیں‘ اور کھلے میدان میں راتوں کو بیکار پڑے رہنا کافی محرک تھے‘ دوسرے حفاظت خود اختیاری کی مسلسل مشق اور صعوبت کشی کی عادت نے ان کو جنگ و پیکار اور بات بات پر معرکہ آزمائی اور زور آزمائی کا شوقین بنا دیا تھا آپس میں معرکہ آرائیوں کے میدان گرم رکھنے کے سبب وہ خود ستائی