تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور شریک لشکر ہونے کا حکم دیا تھا‘ ساتھ ہی زاد راہ‘ سواری‘ سلاح جنگ وغیرہ کے لیے روپے کی زیادہ ضرورت تھی‘ اس لیے چندہ کی بھی عام اپیل فرمائی تھی‘ منافقین نے لوگوں کے بہکانے اور مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنا مال تجارت شام کی طرف روانہ کرنے والے تھے‘ انہوں نے وہ تمام سامان لشکر کی تیاری کے لیے چندہ میں دے دیا جس کی مقدار نو سو اونٹ‘ اور سو گھوڑے معہ سازو براق‘ اور ایک ہزار دینار طلائی تھی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا تمام مال و اسباب لا کر چندہ میں دے دیا اور کہا کہ بال بچوں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر آیا ہوں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے مال و اسباب سے نصف راہ اللہ تعالیٰ میں لا کر دے دیا اور نصف اہل و عیال کے لیے چھوڑا۔ جو لوگ بہت ہی غریب تھے اور محنت مزدوری سے گذر کرتے تھے انہوں نے بھی بڑی دلیری سے جو کچھ ان سے ہو سکا لا لا کر جمع کر دیا‘ منافقین نے اس چندہ میں بھی شرکت نہ کی‘ تیس ہزار لشکر مدینہ میں جمع ہو گیا‘ فوجی سامان صرف اس قدر درست ہوا کہ تمام فوج نے جوتے بنا لیے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا کہ تم لوگ جوتے بنا لو کیونکہ پائوں میں جوتا ہونے سے آدمی سوار کے حکم میں سمجھا جاتا ہے۔ لشکر اسلام کی روانگی غرض ماہ رجب ۹ ھ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم تیس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے‘ مدینہ سے ایک گھنٹہ کی مسافت کے فاصلے پر ایک بستی ذی اوان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہنچے تھے کہ منافقین نے آ کر عرض کیا کہ ہم نے ایک مسجد بنائی ہے‘ ہماری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چل کر نماز ادا کریں‘ تاکہ وہ مسجد بھی قابل تعظیم سمجھی جانے لگے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں اس وقت سفر کی تیاری میں مصروف ہوں واپسی کے وقت دیکھا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ سے نکل کرثنیتہ الوداع نامی پہاڑی پر معسکر قائم کیا اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ انصاری کو مدینہ کا عامل مقرر فرمایا‘ منافقوں کا سردار اعظم عبداللہ بن ابی بھی معہ اپنی جماعت کے شہر سے نکل کر ثنیتہ الوداع پہاڑی کے نشیبی دامن میں خیمہ زن ہوا‘ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی ہمراہ چلنے پر آمادہ ہے‘ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا منشاء لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ جانے سے روکنا تھا‘ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم معہ لشکر آگے کو روانہ ہوئے تو منافقین عبداللہ بن ابی کے ہمراہ مدینہ کو واپس لوٹ آئے‘ بعض منافق اس غرض سے کہ منجری کر کے عیسائیوں کو مدد پہنچائیں اسلامی لشکر میں شریک رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے مدینہ چھوڑ دیا تھا‘ مدینہ میں منافقوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کہنا شروع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کچھ پرواہ نہیں ہے‘ وہ ان کو بار خاطر سمجھتے تھے‘ اسی لیے ان کو چھوڑ دیا ہے الجرف میں مدینہ سے کوس بھر کے فاصلہ پر سیدنا علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ منافقین میری نسبت ایسی ایسی باتیں کہتے تھے اس لیے حاضر خدمت ہو گیا ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ جھوٹے ہیں‘ میں