تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے آگاہ کرتے رہنا ہمدردی و عقیدت کی دلیل ہے‘ اور سیدنا عبداللہ ابن عباس کو لکھا کہ ہمارے پاس اس قسم کی اطلاع پہنچی ہے‘ تم جواب میں کیا کہتے ہو‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے خط میں ابوالاسود کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواباً لکھا کہ آپ کو جو خبر پہنچی ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے‘ میں نے جو مال خرچ کیا ہے وہ میرا ذاتی مال تھا‘ اس کو بیت المال سے کوئی تعلق نہ تھا۔ سیدنا علی نے دوبارہ خط لکھا کہ اگر وہ تمہارا ذاتی مال تھا تو یہ بتائو کہ وہ تم کو کہاں سے اور کس طرح حاصل ہوا تھا اور تم نے اس کو کہاں رکھا تھا۔ اس خط کے جواب میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے لکھا‘ کہ میں ایسی گورنری سے باز آیا‘ آپ جس کو مناسب سمجھیں بصرہ کا عامل مقرر کر کے بھیج دیں‘ میں نے جو مال خرچ کیا وہ میرا ذاتی مال تھا‘ اور میں اس کو اپنے اختیار سے خرچ کرنے کا اختیار رکھتا تھا‘ یہ لکھ کر وہ اپنا سامان درست کر کے بصرہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ‘ کی شہادت انہیں ایام میں جب سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بصرہ کی حکومت چھوڑ کر مکہ معظمہ میں چلے آئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کا معقول روزینہ مقرر کر دیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عقیل کے اس طرح جدا ہو جانے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جانے کا سخت ملال ہوا اور آپ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگی تیاریوں کو ضروری سمجھا‘ کوفیوں کو شام پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور اس مرتبہ کوفیوں پر آپ کی ترغیب کا یہ اثر ہوا کہ ساٹھ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کی کہ ہم تازیست آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور مارنے مرنے پر آمادہ رہیں گے‘ آپ ان ساٹھ ہزار کے علاوہ اور لوگوں کو بھی فراہم کرنے اور سامان حرب درست کرنے میں مصروف تھے‘ خارجیوں کی فوجی طاقت جنگ نہروان میں زائل ہو چکی تھی‘ بظاہر ان کی طرف سے کوئی اندیشہ باقی نہ رہا تھا۔ خوارج کا خطرناک منصوبہ! اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جنگ نہروان میں خوارج کے صرف نو آدمی بچ گئے تھے ان نو آدمیوں نے جو خوارج میں امامت و سرداری کی حیثیت رکھتے تھے اول فارس کے مختلف مقامات میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوتوں اور سازشوں کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں حصہ لیا‘ مگر جب کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو عراق حجاز میں آ کر ادھر ادھر آوارہ پھرنے لگے۔ آخر مکہ معظمہ میں عبدالرحمن بن ملجم مرادی‘ برک بن عبداللہ تمیمی‘ عمروبن بکر تمیمی تین شخص جمع ہوئے‘ اور آپس میں مقتولین نہروان کا ذکر کرکے دیر تک افسوس کرتے رہے‘ پھر تینوں اس رائے پر متفق ہوئے کہ آئو تین سب سے بڑے سرداروں کو جنہوں نے عالم اسلام کو پریشان کر رکھا ہے قتل کر ڈالیں‘ تینوں نے باہم عہدو پیمان کیا اور یہ قرار پایا کہ عبدالرحمن ابن ملجم مرادی مصری سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو‘ اور برک بن عبداللہ تمیمی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو‘ اور عمروبن بکر تمیمی سعدی عمرو بن