تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلافت تھے۔ ادھر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو مکہ کے رئیس اور احد و احزاب کی عظیم الشان فوجوں کے سپہ سالار اعظم‘ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونے کے علاوہ ابتدائے خلافت راشدہ سے اب تک رومیوں کے خلاف کارہائے نمایاں انجام دینے والے کمانڈر ملک شام کا نہایت عمدہ انتظام کرنے والے منظم ہونے کی حیثیت سے امیر عرب سمجھتے تھے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ کے بھائی اور کاتب وحی ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہم جد اور وارث ہونے کی حیثیت سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص طلب کرنے میں وہ اپنے آپ کو سراسر حق و راستی پر یقین کئے ہوئے تھے‘ اتنے بڑے قتل کو مشتبہ قرار دے کر ٹال دینا اور کسی کو بھی زیر قصاص نہ لانا ان کے نزدیک جیتی مکھی نگلنا تھا‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی توجیہہ نہ ان کی سمجھ میں آتی تھی اور وہ نہ سمجھنا چاہتے تھے‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے خروج اور مدینہ کے کئی اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ کی بیعت علی رضی اللہ عنہ سے پرہیز کرنے اور عمروبن العاص وغیرہ حضرات کے تائید کرنے سے ان کے ارادے اور یقین میں اور بھی زیادہ قوت پیدا ہو گئی تھی۔ طرفین اپنی اپنی باتوں اور ارادوں پر صحیح نظر ڈالے اور اپنی خواہشوں اور امیدوں کے فریب سے بھی کلی بچ جانے کے قابل ہو جاتے اگر ان کے ساتھی اور لشکری خود صحیح راستے کو اختیار کر کے انہیں مجبور کر دیتے‘ اور اس کے لیے یہ محرم یعنی تعطیل کا زمانہ بہترین موقع تھا‘ لیکن سبائی جماعت اپنی شرارت پاشی کے کام میں خوب مستعد تھی اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئی‘ کہ مسلمان مصالحت کی طرف نتیجہ خیز طور پر متوجہ نہ ہو سکے۔ ایام تعطیل میں صلح کی دوسری کوشش لڑائی کو بند کرنے کے بعد ۳۷ ھ کی کسی تاریخ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک سفارت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ کی‘ تاکہ پھر صلح و مصالحت کی سلسلہ جنبائی کریں‘ اس سفارت میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ‘ زید بن قیس ‘ زیاد ابن حفصہ‘ شبث بن ربعی شامل تھے‘ شبث بن ربعی پہلی مرتبہ بھی گئے اور ان ہی سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سخت کلامی تک نوبت پہنچ گئی تھی‘ اس مرتبہ پھر شبث کا سفارت میں شامل ہونا خطرے سے خالی نہ تھا‘ اس وفد نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا فرض ادا کیا۔ اول عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے حمدو ثنا کے بعد کہا کہ اے معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت اختیار کر لو تمہارے بیعت کر لینے سے مسلمانوں میں اتفاق پیدا ہو جائے گا‘ تمہارے اور تمہارے دوستوں کے سوا اور کوئی بیعت سے منحرف نہیں ہے‘ اگر تم نے مخالفت پر اصرار کیا تو ممکن ہے کہ وہی صورت پیش آئے جو اصحاب جمل کو پیش آئی‘ معاویہ رضی اللہ عنہ نے قطع کلام کر کے کہا کہ اے عدی تم صلح کرانے آئے ہو یا لڑنے‘ کیا تم مجھ کو اصحاب جمل کا واقعہ یاد دلا کر لڑائی سے ڈرانا چاہتے ہو‘ تم نہیں جانتے کہ میں حرب کا پوتا ہوں‘ مجھے لڑائی کا مطلق خوف نہیں ہے‘ میں جانتا ہوں کہ تم بھی قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے ہو‘ اللہ تعالی تم کو بھی قتل کرائے گا۔