تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نسب میں مل جاتے ہیں اور باعتبار مراتب آباء ایک ہی درجہ میں ہیں‘ کیونکہ دونوں میں مرہ تک چھ چھ پشتوں کا فاصلہ ہے‘ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخربن کعب بن سعد ہے‘ یہ ابوقحافہ کی چچا زاد بہن تھیں اور ام الخیر کے نام سے مشہور تھیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کا نام عثمان رضی اللہ عنہ ہے‘ آپ رضی اللہ عنہ کو زمانہ جاہلیت میں عبدالکعبہ کہا جاتا تھا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کا نام عبداللہ رکھا‘ آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق بھی تھا‘ مگر علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تاریخ الخلفاء رضی اللہ عنہ میں لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ عتیق آپ رضی اللہ عنہ کا نام نہ تھا‘ بلکہ لقب تھا‘ اس لیے کہ حدیث شریف کے موافق آپ رضی اللہ عنہ نار دوزخ سے عتیق یا آزاد تھے‘ بعض نے کہا کہ حسن و جمال کے سبب آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق مشہور ہوا‘ بعض کا قول ہے کہ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے نسب میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو عیب سمجھی جائے پس سلسلہ نسب بے عیب ہونے کے سبب آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق مشہور ہوا۔ تمام امت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق ہے‘ کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے بے خوف ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بلاتامل تصدیق فرمائی اور صدق کو اپنے لیے لازم کر لیا‘ معراج کے متعلق بھی آپ رضی اللہ عنہ نے کفار کے مقابلہ میں ثابت قدمی دکھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کی تصدیق فرمائی‘ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دو سال دو مہینے چھوٹے تھے‘ لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑے تھے‘ آپ رضی اللہ عنہ مکہ میں پیدا ہوئے‘ وہیں پرورش پائی تجارت کی غرض سے آپ رضی اللہ عنہ باہر سفر میں بھی جایا کرتے تھے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور مدینہ میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا۔ عہد جاہلیت زمانہ جاہلیت میں قریش کی شرافت و حکومت دس خاندانوں میں منحصر و منقسم تھی‘ ان معزز و سردار خاندانوں کے نام یہ ہیں(۔:۱) ہاشم (۲) امیہ (۳) نوفل (۴) عبدالدار (۵) اسد (۶)تیم(۷) مخزوم(۸) عدی(۹) جمح (۱۰)سہم‘‘۔ ان میں بنو ہاشم کے متعلق سقایہ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا‘ بنو نوفل کے متعلق بے زاد حاجیوں کو توشہ دینا‘ بنو عبدالدار کے پاس خانہ کعبہ کی کنجی اور دربانی تھی‘ بنو اسد کے متعلق مشورہ اور دارالندوہ کا اہتمام تھا‘ بنو تیم کے متعلق خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ تھا‘ بنو عدی کے متعلق سفارت اور قومی مفاخرت کا کام تھا‘ بنو جمح کے پاس شگون کے تیر تھے‘ بنو سہم کے متعلق بتوں کا چڑھاوا رہتا تھا۔ بنو تیم میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ کرتے تھے جس کو سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مان لیتے تمام قریش اس کو تسلیم کرتے‘ اگر کوئی دوسرا اقرار کرتا تو کوئی بھی اس کا ساتھ نہ دیتا تھا‘ اسی طرح بنو عدی میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سفارت کی خدمت انجام دیتے اور میدان جنگ میں بھی سفیر بن جاتے اور مقابلہ میں قومی مفاخر بیان کرتے تھے‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ علاوہ اس شرف و فضیلت کے کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار اور منجملہ دس سرداران