تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جو قابل تذکرہ جنگی انتظامات کئے ان میں سب سے پہلا کام یہ تھا کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کو افواج شام کی اعلیٰ سپہ سالاری سے معزول کر کے سیدنا ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کو ملک شام کی اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم بنایا‘ اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں نہ صرف جان فروشی اور کافر کشی میں پہلے سے زیادہ مستعدی دکھلائی بلکہ سیدنا ابوعبیدہ کو ہمیشہ مفید ترین جنگی مشورے دیتے رہے‘ یہی وہ امتیاز خاص ہے جو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مرتبہ اور عزت کو تمام دنیا کی نگاہ میں بہت بلند کر دیتا اور ان کو روئے زمین کا بہترین سپہ سالار اور سچا پکا مخلص انسان ثابت کرتا ہے کہ جس کے دل میں رضائے الٰہی کے سوا شہرت طلبی اور ریا کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ دوسرا کام سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ انہوں نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن مسعود کو ایک فوج کے ساتھ عراق کی جانب روانہ کیا اور ان کو ملک عراق کی تمام اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا۔ تیسرا کام فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کو ملک یمن کی جانب روانہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس آخری وصیت کو پورا کریں کہ ملک عرب میں مسلمانوں کے سوا کوئی یہودی اور کوئی نصرانی نہ رہنے پائے۔۱؎ چونکہ مسلمان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے سوا دو برس دوسرے عظیم ۱؎ صحیحمسلمکتابالجھادوالسیرباباجلاءالیھودمنالحجاز۔ امور کی انجام دہی میں مصروف رہے کہ اس وصیت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے پورا کرنے کا ابھی تک موقعہ نہ مل سکا تھا۔ نجران کے عیسائیوں کی جلاوطنی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ملک یمن کی طرف جا کر نجران کے عیسائیوں سے کہہ دو کہ تم اس ملک کو چھوڑ دو‘ ہم تم کو حدود عرب سے باہر ملک شام میں تمہاری ان زمینوں سے زیادہ زرخیز زمینیں اور ان زمینوں سے زیادہ وسیع زمینیں دیتے ہیں‘ اور تم کو کسی مالی و جسمانی محنت و نقصان میں مبتلا کرنا نہیں چاہتے‘ ملک عرب اب صرف مسلمانوں کے لیے رہے گا‘ غیر مسلم ہونے کی حالت میں تمہارا قیام یہاں ممکن نہیں۔ بعض کوتاہ فہم لوگ نجران کے نصرانیوں کی اس جلاوطنی کو ناجائز فعل قرار دے کر معترض ہوا کرتے ہیں‘ لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مدینہ کے یہودیوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور رومیوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دینے میں خاص طور پر کوشش کی تھی‘ اور اب نجران کے عیسائی بھی مسلمانوں کے بیچ میں رہ کر رومی سلطنت کے لیے جو برسر پرخاش تھی جاسوسی اور ہر قسم کی مخالف اسلام سازشوں کے کامیاب بنانے میں مصروف تھے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ملک عرب کے عیسائیوں اور یہودیوں کی سود خوری اور مخالف اسلام سازشی کارروائیوں سے واقف تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کو یہودیوں اور عیسائیوں کی ہمسائیگی سے اس لیے بچانا چاہتے تھے کہ ان کی یہ بد عادات کہیں مسلمانوں میں