تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علیہ و سلم کا داخلہ مدینہ کے اندر ماہ ربیع الاول ۱۴ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بیان کیا گیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اور نبوت کو صرف ساڑھے بارہ سال ہوئے تھے‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ میں ہجرت فرما کر تشریف لانے سے سنہ ہجری شروع ہوتا ہے‘ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بارہ ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں تشریف لائے اس لیے پہلا ہجری سال صرف ساڑھے نو مہینے کے بعد ختم ہو گیا اور یکم محرم سے دوسرا سال شروع ہو گیا تھا‘ لہذا یوں سمجھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۲ ہجری کے ماہ صفر تک ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں رہے۔ --- ہجرت کا پہلا سال ہجرت کے پہلے سال میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعمیر‘ مکان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعمیر‘ بعض رہے ہوئے مومنوں کا مدینہ آ جانا وغیرہ اوپر مذکور ہو چکے ہیں‘ اسی ذیل میں سیدنا ابوامامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی وفات بھی قابل تذکرہ ہے‘ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ پہلے سے بیمار نہ تھے‘ اچانک ان پر کسی مرض کا ایسا حملہ ہوا کہ فوت ہو گئے‘ یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مشرکوں کو یہ کہنے کا موقعہ ملے گا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ اس کے دوستوں میں سے ایک شخص اس طرح اچانک فوت ہو گیا‘ ان کی وفات کے بعد قبیلہ بنو نجار کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ ہمارا سردار تھا‘ اب اس کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کا قائم مقام کوئی شخص ہم میں سے سردار مقرر فرما دیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم بنو نجار میرے ماموں ہو اس لیے میں بھی تم میں شامل ہوں اور میں خود تمہارا نقیب (سردار) ہوں۔ بنو نجار یہ سن کر باغ باغ ہو گئے اور یہ اندیشہ بھی دور ہو گیا کہ اگر کسی شخص کو ان میں سے سردار مقرر کیا جاتا تو انہیں میں سے دوسرے اشخاص جن کو اپنی سرداری کی توقع ہوتی اس کے رقیب بن جاتے اور قبیلہ کا باہمی اتفاق چند روز کے لیے کسی قدر کمزور ہو جاتا‘ اس طرح اس قبیلہ کی ہمت اور باہمی اتفاق میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں پہنچ کر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ اور کوشش صرف فرمائی وہ شہر کا امن و امان اور باشندوں کے تعلقات باہمی کا خوش گوار بنانا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو جاتے ہی محسوس فرمایا کہ مہاجرین کی جماعت مکہ سے آئی ہے وہ اہل مدینہ کے لیے باعث اذیت اور موجب پیچیدگی نہ ہونے پائے‘ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بھی خیال تھا کہ مہاجرین جنہوں نے دین کی خاطر انتہائی تکلیفیں برداشت کی ہیں اور اپنے گھر‘ وطن‘