تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں‘ بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں‘ بیت المال سے تو میں نے اپنے خرچ کے لیے بھی ایک کوڑی نہیں لی‘ اپنے رشتہ دار کے لیے بلا استحقاق کیسے لے سکتا تھا‘اپنے ذاتی مال کا مجھ کو اختیار ہے جس کو چاہوں دوں۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ تم نے چراگاہ کو اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے‘ سیدنا عثمان غنی نے جواب دیا‘ کہ میں جب خلیفہ منتخب ہوا تھا‘ تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ کسی کے اونٹ تھے نہ بکریاں‘ لیکن آج کل میرے پاس صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لیے رکھ لیے ہیں‘ میں ان کو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا‘ البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ ضرور مخصوص ہے اور وہ میرے زمانہ میں نہیں‘ بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آتی ہے‘ اس کا مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ پھر ایک شخص نے کہا‘ کہ تم یہ بتائو کہ تم نے منیٰ میں پوری نماز کیوں پڑھی‘ حالانکہ قصر کرنی چاہیے تھی‘ سیدنا عثمان غنی نے جواب دیا کہ میرے اہل و عیال مکہ میں مقیم تھے‘ لہذا میرے لیے نماز کا قصر نہ کرنا جائز تھا۔ غرض اس قسم کے اعتراضات۱؎ سر مجلس لوگوں نے کئے اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا کافی و شافی جواب دیا‘ اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا اور لوگ خاموشی کے ساتھ اٹھ کر منتشر ہو گئے‘ سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی طرف سے لوگوں کے ساتھ نرمی کا ضرورت سے زیادہ اظہار ہو رہا ہے‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ طریقہ نہیں تھا‘ ان سے سینکڑوں کوس کے فاصلہ پر بیٹھے ہوئے عامل ان کے پیش خدمت غلام سے بھی زیادہ ڈرتے اور خائف رہتے تھے‘ لوگوں کے ساتھ نرمی صرف اسی حد تک برتنی چاہیے جہاں تک کہ فتنہ و فساد کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو‘ آپ جن لوگوں کو جانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو قتل نہیں کرا دیتے‘ سیدنا عثمان غنی نے سیدنا عمرو کے اس مشورے کو سنا اور خاموش ہو گئے۔ ۳۵ ھ کے واقعات مدینہ منورہ میں جو صوبوں کے والی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ معظمہ میں آئے تھے وہ سب یکے بعد دیگرے اپنے اپنے صوبوں کی طرف رخصت ہو گئے‘ آخر میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہونے کے لیے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھ کو اندیشہ معلوم ہوتا ہے کہ کہیں آپ پر حملہ نہ ہو اور آپ اس کی مدافعت نہ کر سکیں‘ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے ساتھ ملک شام کی جانب چلیں‘ وہاں تمام اہل شام میرے فرماں بردار اور شریک کار ہیں‘ سیدنا عثمان غنی نے جواب دیا کہ میں کسی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قرب و ہمسائیگی ترک نہیں کر سکتا‘ یہ سن کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا آپ اجازت دیجئے کہ میں ایک زبردست لشکر ملک شام سے آپ کی حفاظت کے لیے یہاں بھیج دوں کہ وہ مدینہ میں مقیم رہے‘ سیدنا عثمان نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پڑوسیوں یعنی مدینہ والوں کو تنگ کرنا نہیں چاہتا‘ یہ سن کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ضرور دھوکا کھائیں گے‘ سیدنا عثمان غنی اس کے جواب میں حسبی اللٰہ و نعم الوکیل کہہ کر خاموش ہو گئے‘ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے اٹھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ‘ طلحہ رضی اللہ عنہ ‘ زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمتوں میں حاضر