تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خوارج کے زندہ بچ کر فرار ہوئے‘ باقی سب میدان جنگ میں لڑ کر مارے گئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خارجیوں کی لاشوں کو بغیر دفن کئے ہوئے اسی طرح میدان میں چھوڑ کر واپس ہوئے اس لڑائی میں بظاہر خارجیوں کا پورے طور پر استیصال ہو چکا تھا اور اب کوئی خطرہ ان کی طرف سے باقی نہ رہا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ نہروان سے فارغ ہو کر ملک شام کا عزم فرمایا تو اشعث بن قیس نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ فی الحال چند روز کے لیے شام کے قصد کو ملتوی کر کے آرام کرنے کا موقع دیجئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو ناپسند فرمایا‘ اور مقام نخیلہ میں آ کر قیام کیا اور حکم دیا کہ کوئی شخص کوفہ میں نہ جائے‘ جب تک اہل شام پر فتح مندانہ ہو کر واپس نہ آئے‘ نخیلہ کے قیام میں لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور لشکر گاہ کو خالی چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس طرح لشکرگاہ کو خالی دیکھ کر خود بھی کوفہ میں تشریف لے آئے اور سرداروں کو جمع کر کے اس سستی اور تن آسانی کی وجہ دریافت کی‘ بہت ہی کم لوگوں نے شام پر حملہ آوری کے لیے آمادگی ظاہر کی‘ باقی خاموش رہے‘ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو جمع کر کے تقریر کی اور ان کو جنگ شام کے لیے ترغیب دی‘ مگر سب نے خاموشی سے اس تقریر کو سنا‘ اور کسی قسم کی آمادگی و مستعدی کا مطلق اظہار نہ کیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ لوگوں کی اس سرد مہری کو دیکھ کر مجبوراً خاموش ہو گئے اور ملک شام پر حملہ آور نہ ہو سکے۔ مصرکی حالت جیسا کہ اوپر تحریر ہو چکا ہے‘ جنگ صفین کے وقت کے مصر کے عامل محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ تھے‘ اور وہ اس لڑائی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں کوئی خدمت انجام نہ دے سکے تھے کیونکہ وہ امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہو اخواہوں کے ساتھ معرکہ آرائی اور اندرونی جھگڑوں میں گرفتار تھے‘ ہواخواہان عثمان نے معاویہ بن حدیج کو اپنا سردار بنا کر باقاعدہ مقابلہ اور معرکہ آرائی شروع کر دی اور ان کو کئی معرکوں میں کامیابی بھی حاصل ہو گئی تھی۔ جنگ صفین سے فارغ ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اول مالک اشتر نخعی کو جزیرہ کی حکومت پر مامور کر کے بھیجا‘ لیکن چند روز کے بعد مالک کو مصر کی گورنری پر نامزد کر کے روانہ کیا‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ خبر سنی کہ مالک اشتر مصر کی حکومت پر مامور ہو کر آ رہا ہے تو ان کو سخت ملال ہوا‘ اسی طرح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس خبر کو سنا‘ تو وہ بھی بہت فکر مند ہوئے‘ کیونکہ وہ مالک اشتر کو صاحب تدبیر شخص سمجھتے اور جانتے تھے کہ مالک اشتر کے عصر پر قابض ہونے کے بعد مصر کا معاملہ بہت تکلیف دہ اور خطرناک صورت اختیار کر لے گا‘ مگر اتفاق کی بات کہ مالک اشتر کا مصر میں پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں انتقال ہو گیا اور محمد بن ابی بکرمصر پر بدستور قابض و متصرف رہے۔ مالک اشتر کے مرنے کی خبر سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ ہم نے مالک اشتر کو مصر کی حکومت پر اس لیے نامرد نہیں کیا تھا کہ ہم تم سے ناراض تھے‘ بلکہ اس کا تقرر محض اس لیے عمل میں آیا تھا کہ وہ بعض سیاسی امور کو قابلیت سے انجام دے سکتا تھا جس کی حکومت مصر کے لیے