تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پہنچے تو پجاری نے کہا کہ‘ تم کیسے قادر ہو سکتے ہو‘ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم دیکھتے جائو‘ یہ کہتے ہوئے مندر میں داخل ہوئے‘ اور بت کو پاش پاش کر دیا‘ پجاری اسی وقت بت پرستی سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا۔ سیدنا سعد بن زید رضی اللہ عنہ اشہلی کو مناۃ نامی بت کے توڑنے کے لیے مقام قدید کی طرف بھیجا گیا‘ وہاں کے پجاری بھی یہ یقین رکھتے تھے کہ مسلمان بت کے توڑنے پر ہرگز قادر نہ ہو سکیں گے‘ مگر انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں نے جاتے ہی اس کو توڑ پھوڑ کر مندر مسمار کر دیا۔ اسی طرح اور بھی بت خانے مسمار ہوئے۔ اس کے بعد بعض قبائل کی طرف تبلیغ اسلام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفود روانہ کئے‘سیدنا خالد بن ولید بنو جذیمہ کی طرف بھیجے گئے‘ ان کو قتال سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہاں اتفاقاً سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو جنگ کرنی پڑی اور بنو جذیمہ کے چند آدمی مقتول ہوئے‘ ان کا اسباب مال غنمیت کے طور پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب لے کر واپس مکہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس واقعہ پہ اظہار افسوس فرمایا‘ بنو جنیطہ کا مال و اسباب اور ان کے مقتولین کا خوں بہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ جذیمہ کے پاس ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۰۸۔ زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم‘ ص ۶۰۳۔ واپس بھجوایا‘۱؎ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ میں اکتیس روز تک مقیم رہے‘ اور نمازیں برابر قصر فرماتے رہے‘۲؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بلاتعین قیام سے انصار کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اب شاید آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ ہی میں رہیں گے اور مدینے واپس نہ جائیں گے۔ غزوہ حنین فتح مکہ‘ اور اکثر قریش کے داخل اسلام ہونے کی خبر سن کر عرب کے ان قبائل میں زیادہ کھلبلی اور پریشانی پیدا ہوئی جو مسلمانوں کے حلیف نہ تھے‘ انہیں میں ہوازن اور ثقیف کے قبائل تھے‘ جو طائف اور مکہ کے درمیان رہتے اور قریش کے حریف و مدمقابل سمجھے جاتے تھے‘ یہ قبائل نہ مسلمانوں کے حلیف تھے‘ نہ قریش مکہ کے‘ ان کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ مسلمان مکہ کے بعد اب ہمارے اوپر حملہ آور ہوں گے‘ بنو ہوازن کے سردار مالک بن عوف نے بنو ہوازن اور بنو ثقیف کے تمام قبائل کو جنگ کے لیے آمادہ کر کے اپنے گرد جمع کر لیا‘ قبائل نصر‘ حبشم‘ سعد وغیرہ بھی سب آمادہ جنگ ہو کر شریک ہو گئے اور مقام اوطاس میں اس لشکر عظیم کا اجتماع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب مکہ میں اس لشکر عظیم کے جمع ہونے کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن ابی حدرد اسلمیٰ کو بطور جاسوس خبر لینے کے لیے روانہ کیا‘ انہوں نے واپس آ کر بیان کیا کہ دشمنوں کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں‘ اور وہ جنگ کے لیے مستعد ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فوراً جنگ کی تیاری شروع کی‘ دس ہزار مہاجر و انصار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مدینے سے آئے تھے وہ سب اور دو ہزار اہل مکہ‘ کل بارہ ہزار کا لشکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ سے روانہ ہوا‘ اہل مکہ کے دو ہزار آدمیوں میں کچھ نو مسلم تھے اور کچھ لوگ ایسے تھے جوابھی تک مشرکانہ عقائد پر قائم تھے‘ پہلی شوال ۸ ھ کو لشکر اسلام