تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رضی اللہ عنھا بنت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا سودہ رضی اللہ عنہ بنت زمعہ سے نکاح کیا اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج ہوئی‘ معراج کی نسبت طبری کا قول ہے کہ ابتدائے وحی یعنی نبوت کے پہلے سال ہوئی‘ جب سے کہ نماز فرض ہوئی‘ ابن حزم کا قول ہے کہ ۱۰ نبوی میں ہوئی‘ بعض روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معراج ہجرت مدینہ کے قریب ہوئی۔ جس طرح شق صدر کی نسبت علماء کا خیال ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا‘اسی طرح معراج کی نسبت بھی بعض علماء کا خیال ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ ہوئی‘ بہر حال یہ بحث اس جگہ نہیں چھیڑی جا سکتی‘ اس کے لئے دوسری مستقل تصانیف اور تفاسیر و سیر و احادیث کی کتابوں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ مختلف مقامات اورمختلف قبائل میں تبلیغ اسلام مکہ والوں سے نامید ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے طائف کا قصد کیا تھا‘ طائف والوں نے مکہ والوں سے بھی بدتر نمونہ دکھایا‘ مکہ والوں کی نفرت اور ضد دم بدم ترقی پذیر تھی اور ان کی شرارتیں اپنی کیفیت اور کمیت میں پہلے سے زیادہ اور سخت ہوتی جاتی تھیں مگر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمت نہیں ہاری۔ طائف سے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان قبائل میں جو ایام حج میں مکہ کے اردگرد تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے تھے برابر جاتے اور تبلیغ اسلام فرماتے رہے‘ چنانچہ قبیلہ بنو کندہ اور قبیلہ بنو عبداللہ کے اقامت گاہوں میں پہنچے‘ بنو عبداللہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے بنو عبداللہ! تمہارا باپ عبداللہ تھا‘ تم بھی اسم بامسمی یعنی اللہ کے بندے بن جائو۔ قبیلہ بنو حنیفہ کی قیام گاہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم گئے‘ ان ظالموں نے سارے عرب میں سب سے زیادہ نالائق طریق پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار کیا۔ باہر سے جو مسافر مکہ میں آتے یا ایام حج میں دور دراز مقامات کے قافلے آتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس چلے جاتے اور تبلیغ اسلام فرماتے‘ مگر ابولہب کو آپ کی مخالفت میں خاص کدتھی وہ ہر جگہ ۱؎ صحیحبخاری۔کتاببدءالخلقحدیث۳۲۳۱۔صحیحمسلم۔کتابالجھادبابمالقیالنبی صلی اللہ علیہ و سلم مناذیالمشرکین۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے لگا ہوا پہنچ جاتا اور مسافروں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں سننے سے روکتا‘ بنو عامر‘ بنو شیبان بنو کلب‘ بنو محارب‘ فزارہ‘ غسان‘ سلیم‘ عبس‘ حارث عذرہ‘ ذہل‘ مرہ۱؎ وغیرہ قبائل کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعوت اسلام دی۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو عامر کے سامنے اسلام پیش کیا تو ان میں سے ایک شخص فراس نامی نے کہا کہ اگر ہم مسلمان ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو تو کیا تم اپنے بعد ہم کو اپناخلیفہ بنائو گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ کام تو اللہ تعالی کے اختیار میں ہے وہ جس کو چاہے گا وہی میرا خلیفہ ہو جائے گا۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ کیا خوب! اس وقت تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مطیع و حامی بن کر اپنی گردنیں کٹوائیں اور جب تم کامیاب ہو جائو تو دوسرے لوگ