تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہونے کے علاوہ بادشاہ بھی ہوتے ہیں اس لیے ان کے فوت ہونے پر امر نبوت میں تو کوئی ان کا جانشیں نہیں ہوتا‘ لیکن امر سلطنت میں ضرور ان کا جانشیں ہوتا ہے‘ بادشاہ نبی کا جانشیں بادشاہ ہوتا ہے اور چونکہ اس نبی کا تربیت کردہ اور پورے طور پر تعلیم یافتہ ہوتا ہے لہذا اس کی سلطنت و حکومت کا نمونہ اور بہترین حکومت و سلطنت ہوتی ہے‘ یہ جانشین یا خلیفہ نبی کی لائی ہوئی شریعت میں ایک رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہیں کر سکتا‘ کیونکہ امر نبوت یعنی شریعت کا کام تو نبی ختم کر گیا‘ اس خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت و سلطنت کا کام بالکل اپنے رسول کے نمونے پر چلائے‘ اسی لیے اس کی حکومت و سلطنت جو حکومتوں کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہے دوسری حکومتوں سے زیادہ اچھی اور بزرگ و قابل تکریم حکومت سمجھی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ کامل و مکمل اور آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم تھے اور کامل و مکمل ہدایت نامہ لے آئے تھے‘ لہذا بادشاہ نبی تھے‘ ان کی حکومت و بادشاہت دنیا کی تمام حکومتوں اور بادشاہتوں کے لیے قیامت تک بہترین نمونہ ہے‘ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی قیامت تک ہر انسان کے لیے بہترین نمونہ زندگی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ان کے جانشیں یا خلیفہ کا ہونا ضروری تھا‘ چنانچہ امر سلطنت میں ان کے جانشیں ہوئے‘ ان جانشینوں میں جو لوگ براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تربیت کردہ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فیض یافتہ یعنی صحابہ رضی اللہ عنھم کرام تھے‘ وہ خلیفہ سلطنت تھے‘ وہ سلطنت و حکومت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حکومت و سلطنت سے زیادہ مشابہ رکھنے کی قابلیت و اہلیت زیادہ رکھتے تھے‘ لہذا ان کی سلطنت و حکومت یعنی خلافت‘ خلافت راشدہ کے نام سے موسوم ہو گئی‘ اس کے بعد جوں جوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بعد ہوتا گیا خلافت کی حالت وحیثیت میں بھی فرق پیدا ہوتا گیا۔ مسئلہ خلافت میں اختلاف مسلمانوں میں بعض لوگ ایسے بھی پیدا ہوئے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلفاء رضی اللہ عنھم یعنی جانشینوں کے متعلق عجیب عجیب قسم کے اعتراضات کا ایک طومار باندھ دیا ہے اور کسی کو مجرم اور ظالم‘ اور کسی کو بے گناہ و مظلوم ٹھہرایا ہے‘ حالانکہ کسی انسان کو خلافت کے متعلق دم مارنے‘ یا اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل ہی نہیں ہے‘ خدائے تعالیٰ نے زمین کی بادشاہت اور خلافت کا کسی کو عطا کرنا یا کسی سے چھین لینا صرف اپنی ہی طرف منسوب رکھا ہے‘ بحسب ظاہر یا استعارہ کے طور پر بھی خلافت عطا کرنے یا خلافت چھین لینے کے کام کو کسی انسان کی طرف منسوب نہیں فرمایا‘ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی خلیفہ کے انتخاب‘ خلیفہ کے تعین و تقرر کی نسبت خود کوئی حکم نہیں دیا۔ قرآن کریم نے یہ بتایا کہ خلیفہ کو کیا کام کرنے چاہیں‘ کن باتوں سے بچنا اور ڈرنا چاہیے یہ بھی بتا دیا کہ کون کون سے اعمال صالح ہیں جو مستحق خلافت بنا دیتے ہیں‘ لیکن یہ نہیں بتایا کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا خلیفہ یعنی ان کے بعد مسلمانوں پر حکمران کون شخص ہوگا‘ روزہ‘ نماز‘ حج‘ زکو ۃ اور حقوق العباد و حقوق اللہ کی ذرا ذرا سی تفصیل بھی شریعت اسلام نے واضح اور مبرہن طریق پر بیان فرما دی‘ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جانشین کا تعین نہ فرمایا‘ اس میں یہی حکمت تھی کہ خدائے