تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں سے صرف سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اور مہاجرین میں سے ان لوگوں نے جو تجہیز و تکفین کے کام میں مصروف تھے اس وقت سقیفہ بنو ساعدہ میں بیعت نہیں کی‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے تھوڑی دیر بعد اسی روز سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ و طلحہ رضی اللہ عنہ نے مہاجرین میں سے چالیس روز تک محض اس شکایت کی بنا پر بیعت نہیں کی کہ سقیفہ بنو ساعدہ کی بیعت میں ہم کو کیوں شریک مشورہ نہیں کیا گیا۔۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک دن سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ میں آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و استحقاق خلافت کا منکر نہیں ہوں لیکن شکایت یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریبی رشتہ دار ہیں‘ آپ رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنو ساعدہ میں ہم سے مشورہ کئے بغیر کیوں لوگوں سے بیعت لی‘ آپ رضی اللہ عنہ اگر ہم کو وہاں بلوا لیتے تو ہم بھی سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے۔۱؎ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا مجھ کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ عزیز و محبوب ہے‘ میں سقیفہ میں بیعت لینے کی غرض سے نہیں گیا تھا بلکہ مہاجرین و انصار کے نزاع کا رفع کرنا نہایت ضروری تھا دونوں فریق لڑنے اور مارنے مرنے پر تیار تھے‘ میں نے خود اپنی بیعت کی درخواست نہیں کی بلکہ حاضرین نے خود بالاتفاق میرے ہاتھ پر کی‘ اگر اس وقت میں بیعت لینے کو ملتوی رکھتا تو اس اندیشہ اور خطرہ کے دوبارہ زیادہ طاقت سے نمودار ہونے کا قوی احتمال تھا‘ تم جب کہ ۱؎ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم ابن کثیر ج ۳ ص ۱۶۲۔ تجہیز و تکفین کے کام میں مصروف تھے تو میں اس عجلت میں تم کو کیسے وہاں سے بلوا سکتا تھا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے یہ باتیں سن کر فوراً شکایت واپس لی اور اگلے روز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں مجمع عام کے رو برو سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔۱؎ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ بیعت سقیفہ سے واپس آ کر اگلے روز تجہیز و تکفین نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے فارغ ہو کر مسجد نبوی میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ممبر پر بیٹھ کر بیعت عامہ لی‘ بعد ازاں کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا‘ اور حمدو نعت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا۔ کہ ’’میں تمہارا سردار بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں‘ پس اگر میں نیک کام کروں تو تمہارا فرض ہے کہ میری مدد کرو اور اگر میں کوئی غلط راہ اختیار کروں تو فرض ہے کہ تم مجھ کو سیدھے راستے پر قائم کرو‘ راستی و راست گفتاری امانت ہے اور دروغ گوئی خیانت‘ تم میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے جب تک کہ میں اس کا حق نہ دلوا دوں‘ اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے جب تک کہ میں اس سے حق نہ لے لوں‘ تم لوگ جہاد کو ترک نہ کرنا‘ جب کوئی قوم جہاد کو ترک کر دیتی ہے تو وہ ذلیل ہو جاتی ہے جب تک کہ میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و