تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوتے ہی کفار مکہ یعنی دشمنان دین کی ہمتیں بڑھ گئیں‘ ابوطالب ہی ایک با اثر اور بنی ہاشم کے ایسے سردار تھے جن کا سب لحاظ کرتے اور ڈرتے تھے‘ ان کے مرتے ہی بنی ہاشم کا رعب و اثر جو مکہ میں قائم تھا باقی نہ رہا‘ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے میدان خالی پا کر آزادانہ اور بے باکانہ مظالم کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اسی سال سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی مظالم قریش سے تنگ آ کر ہجرت کا ارادہ کیا اور مکہ سے نکلے‘ راستہ میں چار منزل کے فاصلہ پر برک الغماد کے پاس قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ان کی ملاقات ہوئی‘ ابن الدغنہ نے پوچھا کہاں جاتے ہو؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے میری قوم نے اس قدر ستایا ہے کہ میں نے اب ارادہ کیاہے کہ مکہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ جا کر رہوں اور اپنے رب کی عبادت کروں‘ ابن الدغنہ نے کہا کہ آپ تو ایسے شخص ہیں نہ آپ کو خود مکہ سے نکلنا چاہیے‘ ۱؎ اس سے ان مسلمانوں کی ایمانی حالت اور استقامت و پامردی کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے‘ رضی اللہ عنھم اور پھر وہ ایسے کندن بنے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان سے راضی ہونے کی گواہی یوں دی {رضی اللّٰہ عنھم و رضوا عنہ} (البینہ : ۹۸/۸) ۲؎ صحیحبخاری۔کتابالمناسکالحج۔حدیث۱۵۹۰سیرتابنہشامصفحہ۱۸۴تا۱۸۷۔ نہ آپ کی قوم کو یہ گوارا ہونا چاہیے کہ آپ مکہ سے نکلیں‘ میں آپ کو پناہ میں لیتا ہوں‘ آپ واپس چلئیے اور مکہ ہی میں اپنے رب کی عبادت کیجئے‘ چنانچہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مکہ میںواپس آئے‘ ابن الدغنہ نے رئوساء قریش کو جمع کر کے بہت شرمندہ کیا اور کہا کہ تم ایسی نیک صفات والے شخص کو نکالتے ہو جس کا وجود کسی قوم کے لیے موجب فخر ہو سکتا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مکان کے آنگن میں ایک چھوٹا سا چبوترہ بطور مسجد بنا لیا‘ وہیں قرآن شریف پڑھا کرتے اور عبادت الٰہی میں مصروف رہتے تھے‘ ان کی قرآن خوانی کی آواز کا اثر محلہ کی عورتوں اور بچوں پر بہت ہوتا تھا‘ قریش کو یہ بھی گوارا نہ ہو ا اور ابن الدغنہ نے منع کیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری پناہ سے نکلتا اور اپنے اللہ تعالیٰ تعالی کی پناہ کو کافی سمجھتا ہوں مگر قرآن خوانی کو ترک نہیں کر سکتا۔۱؎ ابوطالب کی وفات کے قریباً دو ماہ بعد رمضان ۱۰ نبوی میں سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کا بھی انتقال ہو گیا‘ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بڑی محبت تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام مصائب و تکالیف میں رفیق تھیں‘ سب سے پہلے وہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائی تھیں‘ انہوں نے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہمت بندھائی اور مصیبتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی تھی‘ ابوطالب اور خدیجہ رضی اللہ عنھا ‘ دونوں ایسے رفیق اور ہمدرد تھے کہ ان کی وفات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت غمگین بنا دیا اور ساتھ ہی قریش کی ایذار سانیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم راستہ میں جا رہے تھے کہ کسی شریر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر پر بہت سے کیچڑ اٹھا کر ڈال دی‘ سروریش کے تمام بال آلودہ اور جسم مبارک کے کپڑے ناصاف ہو گئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی حالت میں اپنے