تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روایت کے موافق حلیمہ بنت ابی ذویب اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ایک روز میرے دونوں بچے دوڑتے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ دو سفید پوش آدمی ہمارے قریشی بھائی کو پکڑ کر لے گئے اور ان کا سینہ چاک کر ڈالا‘ میں اور میرا شوہر (حارث بن عبدالعزیٰ) دونوں اس مقام پر گئے دیکھا کہ خوف کے مارے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رنگ فق ہے‘ میں نے دوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گلے لگا لیا اور حال دریافت کیا‘ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دو سفید پوش آدمی میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر میرا سینہ چاک کیا‘ میرا دل نکالا پھر اس میں سے کوئی چیز نکال لی‘ حلیمہ نے دیکھا تو کسی زخم یا خون کا نشان نہ تھا‘ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ اس لڑکے پر کسی جن وغیرہ کا کوئی اثر ہو گیا ہے آپ کو دیر تک اپنے پاس رکھنا مناسب نہ سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ کی والدہ کے پاس مکہ میں لا کر تمام کیفیت سنا دی اور اپنا خیال ظاہر کیا کہ اس لڑکے پر کسی جن کا اثر ہو گیا ہے‘ سیدنا آمنہ نے سن کرفرمایا نہیں کوئی فکر کی بات نہیں ہے میرا یہ بیٹا دنیا میں عظیم الشان مرتبہ پانے اور غیر معمولی انسان بننے والا ہے‘ یہ ہر آفت اور ہر صدمہ سے محفوظ رہے گا اور خدائے تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے گا‘ کیونکہ جب یہ میرے پیٹ میں تھا تو ایام حمل میں میں نے بہت سی بشارتیں خواب میں فرشتوں سے سنیں اور اس کی بہت سی کرامتیں دیکھیں ہیں۔۱؎ صحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے سیدنا جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل چیرا اور ایک قطرہ نکال کر کہا یہ شیطان کا حصہ تھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل سونے کے طشت میں آب زمزم سے دھویا پھر اس کو بجنسہ جہاں رکھا ہوا تھا رکھ دیا۔۲؎ عبدالمطلب کی وفات دو برس تک عبدالمطلب کی سرپرستی و نگرانی میں پرورش پا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تھے کہ عبدالمطلب کا بھی انتقال ہو گیا‘ جب عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم چشم پر آب جنازے کے ساتھ تھے۔ عبدالمطلب نے مرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق یہ انتظام کر دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے بیٹے ابوطالب کی کفالت میں دے کر خاص طور پر وصیت کی تھی کہ اس لڑکے یعنی اپنے بھتیجے کی خبر گیری میں کوتاہی نہ کرنا‘آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور بھی چچا یعنی عبدالمطلب کے بیٹے موجود تھے لیکن عبدالمطلب نے جو بہت ہی ذی ہوش انسان تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ابوطالب کے سپرد اس لیے کیا تھا کہ ابو طالب اور عبداللہ ایک ہی ماں سے پیدا ہوئے تھے‘ لہذا ابوطالب کو اپنے حقیقی بھائی عبداللہ کے بیٹے سے زیادہ محبت ہو سکتی تھی۔ عبدالمطلب کا یہ خیال بالکل درست ثابت ہوا اور ابوطالب نے باپ کی وصیت کو بڑی خوبی و جواں مردی کے ساتھ پورا کیا۔ ابوطالب کی کفالت ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے بچوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے‘ حتی کہ رات کے وقت بھی اپنے پاس ہی سلاتے تھے۔ آپ