تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہزاروں مؤرخ ایسے ملیں گے جن میں سے ہر ایک نے فن تاریخ کی تدوین میں وہ وہ کارہائے نمایاں کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے‘ تمدن کی کوئی شاخ اور معاشرت کا کوئی پہلو ایسا نہ ملے گا جس پر مسلمانوں نے تاریخیں مرتب نہ کی ہوں‘ تاریخ کی جان اور روح رواں روایت کی صحت ہے اور اس کو مسلمانوں نے اس درجہ ملحوظ رکھا ہے کہ آج بھی مسلمانوں کے سوا کسی دوسری قوم کو بطور مثال پیش نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری اقوام اور دوسرے ممالک کی تاریخیں مرتب کرنے میں بھی مسلمانوں کی طرف سے نہایت زبردست صلاحیتیں صرف کی گئی ہیں۔ فن تاریخ کو علم کے درجہ تک پہنچانے کا کام مسلمانوں ہی کی نظر التفات کا رہین منت ہے اور اصول تاریخ کے بانی ابن خلدون کا نام دنیا میں ہمیشہ مؤرخین سے خراج تکریم وصول کرتا رہے گا۔ جب سے مسلمانوں پر تنزل و ادبار کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اور مسلمان مورخین کی کوششوں میں وہ پہلی سی مستعدی اور تیز رفتاری کم ہو گئی ہے‘ ان کے شاگرد یعنی یورپی مؤرخین اس کمی کو ایک حد تک پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ تاریخ سلطنت انسان کو دوسرے حیوانات کے مقابلہ میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ دوسرے حیوانات اپنی طاقتوں میں محدود رکھے گئے ہیں اور پیدائشی طور پر ان کے حسب ضرورت محدود سامان بلا ان کی سعی و کوشش کے دے دیا گیا ہے‘ لیکن انسانوں کو موقع دیا گیا ہے کہ جس قدر سعی و کوشش کرے گا اسی قدر ترقی کا میدان اپنے سامنے وسیع پائے گا‘ اس مدعا کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ انسان ہر وقت سفر میں رہنے اور پستی سے بلندی کی طرف انتقال کرتے رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے‘ انسانوں میں جو انسان زیادہ سفر طے کر لیتا یا یوں کہئے کہ زیادہ بلندی پر پہنچ جاتا ہے وہ چونکہ اپنے سوا دوسرے ہم جنسوں کو پیچھے یا نیچے دیکھتا ہے‘ اس لیے اگرچہ وہ حقیقتاً کامل نہیں ہوتا لیکن نسبتاً کامل اور دوسرے اس کے مقابلہ میں ناقص رہتے ہیں اور چونکہ اس نسبتاً کامل کے لیے ہمیشہ ترقی کی گنجائش باقی ہے اس لیے وہ باوجود ایک نسبتی کمال کے اپنے آپ کو ناقص ہی پاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی فطرت میں عبودیت یعنی حقیقی واہب ترقیات کی فرمانبردای ودیعت کی گئی ہے {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْن}۱؎ جو انسان سب سے اوپر اور سب سے آگے نظر آتا ہے وہ چونکہ ایک مجازی اور نسبتی کمال رکھتا ہے لہذا عام انسان اپنی فطرت کے تقاضے سے مجبور ہیں کہ اس کے سامنے فرماں برداری کا اظہار کریں اور یہی فلسفہ ہے بادشاہت اور حکومت کا اور اسی سے وہ مقولہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بادشاہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے۔۲؎ یہ بات فراموش نہیں ہونی چاہیئے کہ بادشاہ یا فرماں روا نسبتی کامل ہے نہ کہ حقیقی‘ کیونکہ حقیقی کمال جس وجود میں پایا جائے گا وہ مطلق ہو گا نہ کہ محدود اور محیط ہو گا نہ کہ محاط اور منفرد ہو گا نہ کہ متعدد اوربانی ہو گا نہ فانی اور واجب ہو گا نہ ممکن وغیرہ اور اسی ذات وحدہ لاشریک کا نام خدائے تعالیٰ ہے جو ہر ایک نقص ہر ایک عیب اور ہر ایک برائی سے مبرا اور تمام صفات حسنہ کاملہ سے متصف ہے اور وہی حقیقی بادشاہ ‘ حقیقی نافذ الفرمان اور حقیقی حاکم ہے۔ غرض کہ انسان چونکہ ہر حالت میں اپنے آپ کو ناقص دیکھنے کی فطرت رکھتا ہے اس لیے فرمانبردای اور اطاعت بھی اس کی فطرت ہوئی اور اسی فطرت کے خلاف کرنے