تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس سے بھی کوئی تعرض نہ کیا جائے گا‘ سیدنا ابوسفیان اپنی یہ عزت افزائی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اسی وقت اسلامی لشکر مسلح ہو کر مکہ کی طرف بڑھا‘ لشکر اسلام میں الگ الگ قبیلوں کے الگ الگ نشان تھے‘ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے وادی کے سر پر ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر اسلامی لشکر کا نظارہ دیکھا اور پھر سب سے پہلے مکہ میں داخل ہو کر منادی کرا دی کہ جو شخص خانہ کعبہ میں یا میرے گھر میں پناہ لے گا وہ محفوظ رہے گا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش یہی تھی کہ مکہ میں خوں ریزی نہ ہو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے بے سروسامانی کے عالم میں اپنا نکلنا یاد آتا تھا اور پھر شاہانہ عظمت اور لشکر عظیم کے ساتھ مکہ میں داخل ہونا دیکھتے تھے تو بار بار شکر باری تعالیٰ بجا لاتے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں بلا مزاحمت‘ شوکت وعظمت کے ساتھ داخل ہو کر خانہ کعبہ کی طرف تشریف لے گئے‘ سواری پر سات بار بیت اللہ کا طواف کیا‘ وہاں جس قدر بت تھے سب باہر پھینکوا دیے پھر عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ حاجب کعبہ سے کنجی لے کر خانہ کعبہ میں داخل ہوئے‘ نماز چاشت ادا کی‘ پھر خانہ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک تقریر فرمائی‘ اہل مکہ بھی گردنیں جھکائے خوف اور شرمساری کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے مجرمانہ انداز میں کھڑے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تاریخی خطبہ اللہ ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں‘ اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا‘ اپنے بندے کی مدد کی اور سارے گروہوں کو شکست دی‘ کسی شخص کو جو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لایا ہے جائز نہیں ہے کہ وہ مکہ میں خوں ریزی کرے‘ کسی سر سبز درخت کا کاٹنا بھی اس میں جائز نہیں ہے‘ میں نے زمانہ جاہلیت کی تمام رسموں کو پائوں میں مسل دیا ہے‘ مگر مجاورت کعبہ اور حاجیوں کو آب زمزم پلانے کا انتظام باقی رکھا جائے گا‘ اے گروہ قریش! تم کو اللہ نے جاہلیت کے تکبر اور آباء پر فخر کرنے سے منع ۱؎ صحیحمسلمکتابالجھادبابفتحمکہ۔ فرمایا ہے‘ کل آدمی آدم علیہ السلام سے اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے تھے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔: {ٰٓیاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ} (الحجرات : ۴۹/۱۳) ’’اے گروہ قریش تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟‘‘۔ اس سوالیہ فقرے کو سن کر قریش یعنی اہل مکہ نے کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھلائی کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے بزرگ بھائی اور بزرگ بھائی کے بیٹے ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ جواب سن کر فرمایا۔: اچھا میں بھی تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا {لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ} اذھبوافانتمالطقاء۱؎(آج تم پر کوئی ملامت نہیں جائو تم سب لوگ آزاد ہو‘‘۔ اس خطبہ سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کوہ صفا پر جا بیٹھے اور لوگوںسے اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کی بیعت لینے لگے‘ مردوں کی