تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ یہ بے بنیاد اعتراضات ہی تھے‘ ثابت شدہ امور نہیں تھے۔ ہوئے اور بوقت ضرورت عثمان غنی کی امداد کرنے کی سفارش و فرمائش کر کے شام کی جانب روانہ ہو گئے۔ عبداللہ بن سبا کی سازش عبداللہ بن سبا نے مصر میں بیٹھے بیٹھے اپنے تمام انتظامات خفیہ طور پر مکمل کر لیے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر اور ورقا بن رافع انصاری جیسے صحابیوں کو بھی اس نے اپنے دام تزویر میں لے لیا تھا‘ لیکن اس کی اصل تحریک اور مقصود حقیقی کا حال سوائے اس کے چند خاص الخاص مسلم نما یہودیوں کے اور کسی کو معلوم نہ تھا‘ بظاہر اس نے حب علی اور حب اہل بیت کو خلافت عثمانی کے درہم برہم کرنے کے لیے ایک ذریعہ بنایا تھا‘ مذکورہ بالا فوجی مقاموں سے بہت سے سادہ لوح عرب اس کے فریب میں آ چکے تھے‘ چنانچہ عبداللہ بن سبا کی تحریک و اشارے کے موافق ہر ایک مقام پر مہم عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے لوگوں نے تیاریاں کیں‘ ہر مقام اور ہر گروہ کے آدمی اس بات پر تو متفق تھے کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو معزول یا قتل کر دیا جاوے لیکن ان کے بعد کس کو خلیفہ بنایا جائے اس میں اختلاف تھا‘ کوئی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام لیتا تھا‘ کوئی سیدنا زبیر بن العوام کو بہتر سمجھتا اور کوئی سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے سب سے موزوں سمجھتا تھا۔ چونکہ عبداللہ بن سبا کو اسلام سے کوئی ہمدردی تو تھی ہی نہیں‘ اس کا مقصد سیدنا عثمان غنی کی مخالفت تھی‘ لہذا اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت و محبت کے بہانے کو اس موقعہ پر زیادہ استعمال کرنا ترک کر دیا‘ اور لوگوں کو آئندہ خلیفہ کے انتخاب میں مختلف الخیال دیکھ کر ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ فتنہ پرداز قافلوں کی روانگی سب سے پہلے ایک ہزار آدمیوں کا ایک قافلہ یہ مشہور کر کے کہ ہم حج ادا کرنے جاتے ہیں مصر سے روانہ ہوا‘ اس قافلہ میں عبدالرحمن بن عدیس‘ کنانہ بن بشر لیثی ‘ سودان بن حمران وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس قافلہ کا سردار غافقی بن حرب عکی تھا‘ تجویز یہ کی گئی تھی کہ مصر سے یہ ایک ہزار آدمی سب کے سب ایک ہی مرتبہ روانہ نہ ہوں‘ بلکہ مختلف اوقات میں یکے بعد دیگرے چار چھوٹے چھوٹے قافلوں کی شکل میں روانہ ہوں اور آگے کئی منزل کے بعد سب مل کر ایک قافلہ بن جائیں‘ چنانچہ ایسی ہی ہوا۔ ایک ہزار کا قافلہ مقام کوفہ سے مالک اشتر کی سرداری میں اسی اہتمام کے ساتھ یعنی چار حصوں میں منقسم ہو کر روانہ ہوا‘ اس قافلہ میں زید بن سوحان عبدی‘ زیادبن النضر حارثی‘ عبداللہ بن الاصم عامری بھی شامل تھے۔ اسی طرح ایک ہزار کا قافلہ حرقوص بن زہیر سعدی کی سرداری میں بصرہ سے روانہ ہوا جس میں حکیم بن جبلہ عبدی‘ بشیر بن شریح قیسی وغیرہ شامل تھے۔ یہ تمام قافلے ماہ شوال ۳۵ ھ میں اپنے اپنے شہروں سے روانہ ہوئے اور سب نے یہ مشہور کیا کہ ہم حج ادا کرنے جاتے ہیں‘ ان سب نے آپس میں پہلے ہی سے یہ تجویز پختہ کر لی تھی کہ اس مرتبہ امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ضرور معزول یا قتل کریں گے‘ اپنے اپنے مقاموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر روانہ ہوئے‘ پھر سب یکجا ہوئے‘ اس کے بعد چند منزلیں طے کر کے تینوں صوبوں کے قافلے مل کر ایک ہو گئے