تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وجب الشکر علینا مادعاللہ داع ایھا المبعوث فینا جئت بالامر المطاع۱؎ (ہم پر بدر نے ثنیات۲؎ الوداع سے طلوع کیا۔ جب تک کوئی دعا کرنے والا ہے‘ ہم پر شکر کرنا واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا حکم لے کر آئے ہیں کہ اس کی اطاعت ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبا میں دو شنبہ کے روز داخل ہوئے اور جمعہ تک یہیں مقیم رہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کلثوم بن ہدم کے مکان میں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حبیب بن اساف رضی اللہ عنہ کے مکان میں فروکش ہوئے۔ سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجلس فرماتے‘ یعنی سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں لوگ آ آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گرد جمع رہتے تھے‘ قبا میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں چند ایام کے اندر ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور یہ سب سے پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی‘ اس کے بعد ۱۲ ربیع الاول جمعہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبا سے روانہ ہو کر مدینہ میں داخل ہوئے۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبا ہی میں فروکش تھے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ‘ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ سفر مکہ سے مدینہ تک پیدل طے کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب تک غار ثور میں رہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ مکہ میں مقیم رہ کر لوگوں کو امانتیں سپرد کرتے رہے‘ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غار ثور سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اسی روز سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی مکہ سے مدینہ کی طرف چلے‘ مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تنہا روانہ ہوئے تھے اس لیے وہ رات بھر تو راستہ چلتے اور دن کے وقت کہیں چھپ کر بیٹھ رہتے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم معروف راستہ سے بچ کر تشریف لائے اور آٹھ دن میں قبا پہنچے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ معروف راستہ پر آئے مگر چونکہ پیدل تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے تین چار دن بعد قبا پہنچے۔ ۱؎ یہ اشعار قبا جو مدینہ کی نواحی بستی تھی‘ اس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے داخلہ کے موقع پر پڑھے گئے تھے۔ ملاحظہ ہو رحمۃ للعالمین ۱/۱۴۰۔ ۲؎ ثنیات الوداع کے معنی ہیں رخصت کی گھاٹیاں ‘ اہل مدینہ جب کسی کو مکہ کی طرف روانہ کرتے تو ان گھاٹیوں تک اس کے ساتھ الوداعی کہتے آتے‘ اسی لیے ان کا نام ثنیات الوداع مشہور تھا۔ شہر مدینہ میں داخلہ جمعہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبا اور بنی عمرو بن عوف یعنی قبا والوں سے رخصت ہو کر شہر مدینہ میں قیام کے ارادہ سے چلے‘ مدینہ کے ہر محلہ میں ہر ایک خاندان اس امر کا خواہاں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم میں مقیم ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنو سالم بن عوف کے محلہ میں تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آ گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہیں ایک میدان میں سو آدمیوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا فرمائی۔ یہ مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پہلا جمعہ اور پہلا خطبہ تھا‘ اس جگہ بھی بعد میں ایک مسجد تیار ہو گئی۔