تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو حکم دیا کہ سفر اورلڑائی کی تیاری شروع کر دو‘ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ کی اس تیاری کے پوشیدہ رکھنے کی تاکید فرمائی‘ ادھر بدیل بن ورقا معہ ہمراہوں کے مدینے سے باہر جا رہے تھے‘ اور ابوسفیان مکہ سے مدینے کو آ رہے تھے‘ راستہ میں دونوں کی ملاقات ہوئی‘ ابوسفیان نے پوچھا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسی وادی تک آئے تھے‘۱؎ ابوسفیان کو یہ یقین تھا کہ ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک مکہ کے اس واقعہ کی خبر نہ پہنچی ہو گی‘ اسی لیے وہ صلح نامہ کی تجدید جلد از جلد کرنا چاہتا تھا۔ ابوسفیان مدینہ میں ابوسفیان نے مدینے میں آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ‘ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ ‘ علی رضی اللہ عنہ سے الگ الگ باتیں کرنا چاہیں‘ مگر کسی نے اس کو کوئی جواب نہ دیا‘ اس کو بڑی مایوسی ہوئی‘ آخر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کے ساتھ یہ مذاق کیا کہ اس سے کہا کہ تو بنی کنانہ کا سردار ہے‘ مسجد نبوی رضی اللہ عنہ میں خود کھڑے ہو کر بآواز بلند یہ اعلان کر دے کہ میں صلح کی میعاد کو بڑھاتا اور عہد و اقرار کو مضبوط کئے جاتا ہوں‘ ابوسفیان نے اسی طرح کھڑے ہو کر مسجد میں اعلان کیا اور فوراً مدینہ سے روانہ ہو گیا‘ جب وہ مکہ میں پہنچا تو قریش مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے تیرے ساتھ تمسخر کیا تھا‘ بھلا معاہدے کہیں اس طرح کرتے ہیں۔ ابوسفیان کو اپنی اس حماقت پر بڑی ندامت ہوئی‘ ابوسفیان کی روانگی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو مکہ کی طرف روانگی کا حکم دیا اس وقت تک خفیہ خفیہ جنگ کی تیاریاں تو تمام صحابہ رضی اللہ عنھم کر ہی رہے تھے لیکن یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اسلامی لشکرکس طرف کو روانہ ہو گا اور کس قوم یا علاقہ پر حملہ ہوگا‘ اس احتیاط سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ تھا کہ قریش کو پیشتر سے اس حملہ کی خبر نہ ہونے پائے۔ ایک صحابی حاطب رضی اللہ عنہ بن ابی بلتعہ نے قریش کو مسلمانوں کے حملہ آور ہونے کی اطلاع دینے کے لیے ایک خط کسی عورت کے ہاتھ ان کے پاس روانہ کیا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو الہام الہی کے ذریعہ اس کی اطلاع ہو گئی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور زبیر بن العوام کو روانہ کیا کہ فلاں عورت قریش مکہ کے نام ایک خط لے جا رہی ہے اس سے خط برآمد کر لائو‘ انہوں نے روضہ خاخ میں پہنچ کر اس کو گرفتار کیا‘ اس کا تمام اسباب و سامان دیکھا‘ خط کا پتہ نہ چلا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا‘ کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو غلط خبر ملے خط ضرور اس کے پاس ہے‘ چنانچہ انہوں نے عورت کو ڈرایا دھمکایا تو اس نے اپنے جوڑے یعنی سر کے بالوں میں سے خط نکال کر دیا‘ دیکھا تو خط سیدنا حاطب بن ابی ۱؎ ایضاً ص ۴۸۹۔ بلتعہ رضی اللہ عنہ کا تھا‘ عورت اور خط کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لائے‘ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ طلب کئے گئے‘ انہوں نے کہا چونکہ مکہ میں میرے عزیز و اقارب ہیں اس لیے میں نے چاہا کہ اہل مکہ پر ایک احسان کر دوں اور ان کو