تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے فاصلہ پر تھا۔۱؎ منافقین کی شرارت واپسی میں منافقوں نے اپنی عداوت باطنی کے تقاضے سے ایسی تدابیر اختیار کیں کہ بعض مہاجرین و انصار میں شکر رنجی و بے لطفی تک نوبت پہنچا دی‘ عبداللہ بن ابی نے انصار‘ مہاجرین کے سوال کو خوب ابھارا یہاں تک کہ اس کی زبان سے نکلا کہ مدینہ میں چل کر ان تمام مہاجرین کو مدینہ سے نکال دیا جائے گا‘ ۲؎اس سفر میں ایک اور قابل تذکرہ واقعہ پیش آیا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بھی سفر میں ہمراہ تھیں ایک منزل پر لشکر نے قیام کیا وہاں سے روانگی کے وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا ہودج اونٹ پر رکھ دیا گیا اور یہ محسوس نہ ہوا کہ وہ ہودج میں ہیں یا نہیں‘ حالانکہ وہ رفع حاجت کے لیے گئی ہوئی تھیں‘ وہاں ان کو کسی قدر دیر اس وجہ سے لگی کہ وہ اپنی ہمشیرہ کا ایک ہار پہنے ہوئی تھیں‘ اتفاقاً اس ہار کا ڈورا کسی جھاڑی میں الجھ کر ٹوٹ گیا اور تمام موتی بکھر گئے‘ چونکہ پرائی چیز تھی اس لیے اور بھی اس کا خیال ہوا‘ زمین پر سے موتیوں کو چننے میں وقت زیادہ صرف ہو گیا‘ لشکر اس عرصہ میں روانہ ہو گیا‘ آپ رضی اللہ عنھا واپس تشریف لائیں تو قیام گاہ کو خالی پایا‘ بہت متردد اور پریشان ہوئیں‘ اسی عرصہ میں صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ اپنا اونٹ لیے ہوئے پیچھے سے آتے ہوئے نظر آئے‘ صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے سپرد یہ خدمت تھی کہ وہ سب سے پیچھے قیام کریں اور قافلہ کی روانگی کے بعد سب سے بعد میں قیام گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے روانہ ہوں کہ اگر کسی کی کوئی چیز رہ گئی ہے تو اس کو اٹھاتے لائیں‘ اور اس طرح کسی کا کوئی نقصان نہ ہونے پائے۔ صفوان رضی اللہ عنہ کو یہ خدمت اس لیے بھی سپرد کی گئی تھی کہ وہ کثیر النوم بھی ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۳۸ تا ۴۴۱ ملخصاً ۲؎ صحیحبخاریکتابالتفسیرحدیث۴۹۰۰۔ تھے اور دیر میں سوتے ہوئے اٹھتے تھے۔ حسب دستور سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ قیام گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے آئے اور انہوں نے ام المومنین رضی اللہ عنھا کو دیکھا تو متاسف و ششدر رہ گئے‘ فوراً اپنے اونٹ سے اترے‘ ام المومنین رضی اللہ عنھا کو اونٹ پر بٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر روانہ ہوئے‘ اور لشکر سے جا ملے‘ جب اپنے لشکر میں اس طرح پہنچے اور لوگوں کو اس واقعہ کا علم ہوا تو سب متاسف ہوئے‘ لیکن منافقین کو بڑا اچھا موقع باتیں بنانے اور بہتان باندھنے کا مل گیا‘ منافقوں نے طرح طرح کی باتیں کر کے لشکر میں ایک طوفان برپا کردیا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہت متردد اور خاموش تھے۔ غرض منافقوں نے اس مرتبہ شریک لشکر اسلام ہو کر مسلمانوں کو اپنی شرارتوں سے پریشان کرنے کا خوب موقع پایا‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا صدیقہ پر منافقوں نے بہتان باندھا اس سے بے خبر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا قریباً ایک ماہ بیمار رہیں اور مسلمانوں کو عام طور پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی عصمت و عفت اور مظلومی کا یقین ہو گیا۔ ایک مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی طرف سے ان کی پاک دامنی اور بے گناہی کا حکم نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے صدیقہ رضی اللہ عنھا کے صدیقہ یعنی سچی ہونے کی گواہی دی۔۱؎ اس سے پیشتر ایک اور صدیقہ یعنی سیدہ مریم علیہ