تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہ چھوڑا‘ بہت سے پانی میں ڈوب کر ‘ بہت سے خندق میں گر کر ہلاک ہوئے‘ ایک لاکھ تیس ہزار رومی لقمہ اجل ہوئے‘ باقی اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے‘ ان مفرورین میں سوار زیادہ تھے‘ پیدل قریباً سب مارے گئے۔ لڑائی تمام دن اور تمام رات جاری رہ کر اگلے دن صبح کے وقت مسلمانوں کی فتح کی شکل میں ختم ہوئی‘ اور رومی سپاہیوں سے میدان بالکل خالی نظر آیا‘ رومیوں کا سپہ سالار اعظم تذارق برادر ہرقل بھی مارا گیا‘ اور بھی کئی سردار مارے گئے‘ مسلمانوں کے تین ہزار بہادر شہید ہوئے‘ ان تین ہزار میں جرجہ بن بوذیہ نو مسلم‘ عکرمہ بن ابی جہل‘ عمرو بن عکرمہ‘ سلمہ بن ہشام ‘ عمرو بن سعید‘ ابان بن سعید‘ ہشام بن العاصی‘ ہبار بن سفیان‘ طفیل بن عمرو وغیرہ شہداء رضی اللہ عنہم خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں۔ جنگ یرموک ربیع الاول یا ربیع الثانی ۱۳ ھ میں بیان کی جاتی ہے‘ مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا‘ جنگ یرموک یقینا جمادی الثانی کی آخری تاریخوں میں ہوئی ہے‘ رومی لشکر کے یرموک میں آنے سے پہلے مسلمانوں نے بصریٰ وغیرہ مقامات فتح کئے تھے‘ وفات صدیقی تک فتح یرموک کی خبر مدینہ میں نہیں پہنچی تھی‘ یہ غیر ممکن تھا کہ فتح یرموک کی خبر دو ڈھائی مہینے تک مدینہ میں نہ پہنچتی۔ وفات صدیقی شام کے ملک میں یرموک کی لڑائی نے قیصر ہرقل کو بدحواس بنا دیا تھا‘ جب یرموک کے بھاگے ہوئے سپاہی حمص میں ہرقل کے پاس جہاں وہ نتیجہ جنگ کا انتظار کر رہا تھا پہنچے ہیں تو وہ اپنے کئی لاکھ آہن پوش لشکر کا مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھ سے تہس نہس ہونا سن کر ششدر رہ گیا اور فوراً حمص سے روانہ ہو کر کسی دوسرے مقام کی طرف چل دیا‘ جاتے ہوئے یہ حکم دے گیا کہ دمشق اور حمص کو اچھی طرح قلعہ بند اور مضبوط کر لیا جائے‘ مسلمان یرموک سے بڑھ کر دمشق کا محاصرہ کر چکے تھے‘ شام کے ملک پر گویا مسلمان قابض و متصرف ہو ہی چکے تھے یا ہونے والے تھے‘ ہرقل کی کمر یرموک میں ٹوٹ چکی تھی اور اب بجائے اس کے رومی عرب کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ان کی نگاہوں میں خود اپنی موت و ہلاکت پھرنے لگی تھی‘ اسی طرح عراق کا زرخیز و وسیع حصہ مسلمانوں کے قبضہ و تصرف میں آ چکا تھا‘ اسلامی حکومت ملک عرب میں مستقل و پائدار ہو کر ایران و روم کی سرحدوں کو پیچھے ہٹانے اور خود وسیع ہونے میں مصروف ہو چکی تھی۔ شروع ماہ جمادی الثانی ۱۳ ھ میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بعارضہ تپ مبتلا ہوئے‘ پندرہ روز برابر شدت کا بخار رہا‘ جب آپ کو یقین ہوا کہ وقت آخر آ پہنچا ہے‘ تو آپ نے سب سے پہلے سیدنا عبدالرحمن بن عوف کو بلا کر خلافت کے متعلق مشورہ کیا‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ کی بابت تمہارا کیا خیال ہے‘ انہوں نے کہا کہ عمر کے مزاج میں سخت گیری زیادہ ہے‘ آپ نے فرمایا کہ عمر کی سختی کا سبب صرف یہ ہے کہ میں نرم طبیعت رکھتا تھا‘ میں نے خود اندازہ کر لیا ہے کہ جس معاملہ میں نرمی اختیار کرتا تھا اس میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سختی کی جانب مائل نظر آتی تھی‘لیکن جن معاملات میں میں نے سختی سے کام لیا ہے ان میں عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ نرمی کا پہلو اختیار کرتے تھے‘ میرا خیال ہے کہ ان کو ضرور نرم دل اور معتدل بنا دے گی‘ اس کے بعد آپ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بلا کریہی سوال کیا‘ انہوں نے جواب دیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا