تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
متاسف حالت میں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے‘ غرض تھوڑی ہی دیر میں اذرح کی انجمن درہم برہم ہو کر چڑیاں سی اڑ گئیں ~۱~ شامی لوگ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے ہمراہ خوشی خوشی دمشق کو جا رہے تھے اور انہوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین کہنا شروع کر دیا تھا‘ دمشق میں پہنچ کر شامیوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کامیابی کی خوش خبری سنائی‘ اور ان کے ہاتھ پر سب نے بیعت کی۔ عراقی جمعیت جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور شریح بن ہانی کے ہمراہ کوفہ کو جا رہی تھی اس کی حالت شامیوں کے خلاف تھی‘ یہ آپس میں ایک دوسرے کو برا کہتے اور جھگڑتے تھے کوئی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ملزم ٹھہراتا اور برا کہتا کوئی ابو موسیٰ کی تائید کرتا اور بے خطا ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا‘ کوئی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہتا اور حکمین کے تقرر پر رضا مندی ظاہر کرنے کے فعل کو غلطی بتاتا اور کوئی اس رائے کی مخالفت کر کے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا۔ غرض ان چار سو آدمیوں کی حالت بالکل وہی تھی جو صفین سے کوفہ کی طرف جاتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تھی‘ کوفہ میں پہنچ کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے تمام رئوداد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سنائی‘ اور انہوں نے ابوموسیٰ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دونوں کے فیصلے کو قرآن مجید کے خلاف بتا کر اس کے ماننے سے قطعاً انکار کیا‘ اور معاویہ رضی اللہ عنہ ‘ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ‘ حبیب بن مسلمہ عبدالرحمن بن مخلد‘ ضحابک بن قیس‘ ولید اور ابو الاعور کے لیے بد دعا کی اور ان پر لعنت بھیجی‘ اور اسی وقت سے ایک دوسرے پر لعنت کرنے کا سلسلہ جاری ہوا‘ انا للہ و انا الیہ راجعون‘ مقام اذرح کی کارروائی سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صرف اس قدر فائدہ پہنچا کہ جو لوگ ان کے ساتھ شامل تھے پہلے وہ ان کو امیر المومنین اور مسلمانوں کا خلیفہ نہیں کہتے تھے اور اب وہ علانیہ ان کو امیر المومنین رضی اللہ عنہ کہنے لگے‘ مگر کوئی نئی جماعت محض اذرح کی کارروائی کی بنا پر ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں ہوئی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے پہلے ہی سے دوگونہ مشکل تھی‘ اب وہ سہ گونہ ہو گئی‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور شامیوں کو زیر کرنا اور خارجیوں کو قابو میں رکھنا یہ کام تو پہلے ہی سے درپیش تھے‘ اب تیسری مصیبت یہ پیش آئی کہ خود اپنے دوستوں اور معتقدوں کو یہ سمجھانا پڑتا تھا کہ حکمین نے چونکہ آپس میں بھی اختلاف کیا ہے لہذا ان کا کوئی فیصلہ نہیں مانا جا سکتا‘ دوسرے حکمین کو قرآن مجید نے یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خواہشات کی تائید کریں اور حق و راستی سے جدا ہو جائیں‘ چند روز تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو یہی بات سمجھائی کہ حکمین کا فیصلہ ہرگز قابل تسلیم نہیں ہے‘ اور ہم کو اہل شام پر چڑھائی کرنی چاہیے‘ جب یہ حقیقت لوگوں کی سمجھ میں آ گئی‘ اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام پر چڑھائی کرنے پر آمادہ ہونے لگے تو گروہ خوارج نے بھی جو کوفہ میں کافی تعداد کے ساتھ موجود تھا کروٹ لی۔ خوارج کی شورش اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ حکمین کا فیصلہ سننے کے لیے چار سو آدمی مقام اذرح کی طرف بھیجنے لگے تھے توحرقوص بن زہیر نے کہا تھا‘