تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے‘ اور ہم میں سے کوئی ان کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا‘ پھر آپ نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو بلا کر یہی سوال کیا‘ انہوں نے بھی یہی جواب دیا جو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ دے چکے تھے‘ اس کے بعد سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے‘ آپ نے ان کے سامنے بھی فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کر جائوں‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ خدائے تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے کہ آپ نے رعیت کے ساتھ کیسا معاملہ کیا‘ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مجھ کو اٹھا کر بٹھا دو‘ چنانچہ آپ کو بٹھایا گیا‘ آپ نے فرمایا میں خدائے تعالیٰ کو جواب دوں گا کہ میں نے تیری مخلوق پر تیری مخلوق کے بہترین شخص کو خلیفہ مقرر کیا ہے‘ یہ سن کر سیدنا طلحہ خاموش ہو رہے‘ پھر آپ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بلا کر وصیت نامہ لکھنے کا حکم دیا‘ شدت علالت کی وجہ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رک رک کر بولتے جاتے اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ لکھتے جاتے تھے‘ اس وصیت نامہ کا مضمون یہ تھا۔ ’’یہ وہ عہد ہے جو ابوبکر خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت کیا ہے جب کہ اس کا آخری وقت دنیا میں اور اول وقت آخرت کا ہے‘ ایسی حالت میں کافر بھی ایمان لاتا اور فاجر بھی یقین لے آتا ہے‘ میں نے تم لوگوں پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ہے اور میں نے تم لوگوں کی بھلائی اور بہتری میں کوتاہی نہیں کی‘ پس اگر عمر رضی اللہ عنہ نے صبر وعدل سے کام لیا تو یہ میری اس کے ساتھ واقفیت تھی اور اگر برائی کی تو مجھ کو غیب کا علم نہیں ہے‘ اور میں نے تو بہتری اور بھلائی کا قصد کیا ہے‘ اور ہر شخص کو اپنے نتائج اعمال سے سابقہ پڑنا ہے {وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ} (الشعرآء : ۲۶/۲۲۷) (جنہوں نے ظلم کیا ہے عنقریب دیکھ لیں گے کہ کس پہلو پر پھیرے جاتے ہیں‘‘۔) صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا آخری خطبہ! جب یہ تحریر لکھی جا چکی تو آپ نے حکم دیا کہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دو‘ پھر خود اسی شدت مرض کی حالت میں باہر تشریف لائے اور مسلمانوں کے مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’میں نے اپنے کسی عزیز رشتہ دار کو خلیفہ نہیں بنایا‘ اور میں نے صرف اپنی ہی رائے سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہیں بنایا‘ بلکہ صاحب الرائے لوگوں سے مشورہ کر لینے کے بعد خلیفہ بنایا ہے‘ پس کیا تم لوگ اس شخص کے خلیفہ ہونے پر رضا مند ہو جس کو میں نے تمہارے لیے انتخاب کیا ہے؟ یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے انتخاب اور آپ کی تجویز کو پسند کرتے ہیں‘ پھر سیدنا صدیق اکبر نے فرمایا کہ تم کو چاہیے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کہنا سنو‘ اور اس کی اطاعت کرو‘ سب نے اقرار اطاعت کیا‘ اس کے بعد سیدنا عمر فاروق کو مخاطب کر کے فرمایا۔کہ: ’’اے عمر! میں نے تم کو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنا نائب بنایا ہے‘ اللہ تعالیٰ سے ظاہر و باطن میں ڈرتے رہنا‘ اے عمر رضی اللہ عنہ ! اللہ تعالیٰ کے بعض حقوق ہیں‘ جو رات سے متعلق ہیں ‘ ان کو وہ دن میں قبول نہیں کرے گا‘ اسی طرح بعض حقوق دن سے متعلق ہیں جن کو وہ رات میں قبول نہیں کرے گا‘ اللہ تعالیٰ نوافل کو قبول نہیں فرماتا جب تک کہ فرائض ادا نہ کئے جائیں۔ اے عمر رضی اللہ عنہ ! جن کے اعمال صالحہ قیامت میں وزنی ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے نیک اعمال کم ہوں گے وہ مبتلائے مصیبت ہوں گے‘ اے عمر! فلاح و نجات کی راہیں قرآن مجید پر عمل کرنے