تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علاقے چھوڑ دیں گے اور دوسری طرف چلے جائیں گے‘ اگر تم ہمارے مطیع نہ ہوئے تو پھر تم کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے گا جو موت کو ایسا دوست رکھتے ہیں جیسے تم زندگی کو محبوب رکھتے ہو۔‘‘دوسرے منشور عام کا یہ مضمون تھا کہ ’’تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے تمہاری شیخی کرکری کر دی اور تمہارے اتفاق کو توڑ دیا اور تمہاری شان و شوکت مٹا دی‘ پس تم اسلام قبول کرو کہ سلامت رہو گے یا ہماری حفاظت میں آ کر ذمی بن جائو اور جزیہ ادا کرو‘ ورنہ میں ایسی قوم تم پر لایا ہوں جو موت کو ایسا عزیز رکھتی ہے جیسا تم شراب خوری کو محبوب رکھتے ہو‘‘ ان خطوط و فرامین کا یہ اثر ہوا کہ دربار ایران میں جو بادشاہ کے متعلق جھگڑے پڑے ہوئے تھے وہ فوراً سلجھ گئے اور امیران در بار فوراً اپنا ایک بادشاہ منتخب کر لینے میں متفق ہو گئے‘ تاکہ اہل عرب کا تدارک دل جمعی کے ساتھ بہ آسانی ہو سکے۔ فتح انباریا جنگ ذات العیون ایرانیوں نے انبار میں ایک لشکر عظیم فراہم کر کے شیرزاد والی ساباط کو اس لشکر کا سپہ سالار بنایا تھا‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید حیرہ میں اس اجتماع لشکر کی خبر سن کر حیرہ سے انبار کی طرف روانہ ہوئے‘ شیرزاد نے انبار کی فصیل کے باہر مٹی کا دمدمہ بھی تیار کرا لیا تھا اور وہ عربی لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر طرح تیار و مستعد تھا‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے جب انبار کا محاصرہ کیا تو محصورین نے دمدمہ سے یک لخت تیروں کا مینہ برسانا شروع کیا اور اسلامی لشکر میں ایک ہزار مجاہدین کی آنکھیں تیروںسے زخمی اور بیکار ہو گئیں‘ لیکن لشکر اسلام اور اس کا شیر دل سپہ سالار ایسا نہ تھا کہ تیروں کی بارش اس کو روک سکے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کمزور و ناتواں اونٹوں کو ذبح کرا کر خندق میں ڈال دیا اور اس طرح جب خندق کے عبور کرنے کا راستہ بن گیا تو مسلمانوں نے اول دمدمہ پر قبضہ کیا‘ پھر فصیل شہر تک پہنچ کر خون کے دریا بہا دئیے‘ ایرانیوں نے مدافعت میں بڑی ہمت اور بہادری کا اظہار کیا‘ مگر مسلمانوں کے مقابل کچھ پیش نہ گئی‘ شیرزاد نے جب دیکھا کہ شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہونے والا ہے تو اس نے فوراً سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے پاس صلح کا پیغام بھیجا‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے جواباً کہلا بھیجا کہ شیرزاد اپنے چند مخصوص ہمراہیوں کے ساتھ صرف تین دن کا سامان رسد لے کر اگر شہر سے نکلنا چاہے تو ہم اس کو جانے دیں گے‘ چنانچہ ایسے ہی ہوا کہ شیرزاد شہر چھوڑ کر نکل گیا اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ فاتحانہ شہر میں داخل ہوئے۔ ایرانیوں نے اسلامی لشکر کے مقابلہ کے لیے جا بجا فوجی تیاریاں مکمل کر رکھی تھیں‘ چنانچہ انبار میں معلوم ہوا کہ مقام عین التمر میں مہران بن بہرام چوبیس ہزار ایرانیوں کا ایک لشکر عظیم لیے ہوئے اور عقبہ بن ابی عقبہ اہل عرب کے ایک اجتماع عظیم کے ساتھ بقصد قتال خیمہ زن ہے‘ گرد و نواح کے عرب قبائل تغلب و ایاد وغیرہ بھی اسلامی لشکر کے مقابلہ کی غرض سے فراہم ہو کر آ گئے تھے‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے زبرقان بن بدر کو شہر انبار کا حکم مقرر کر کے خود التمر کا قصد کیا۔ فتح عین التمر عقبہ بن عقبہ نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کے قریب پہنچنے کی خبر سن کر مہران بن بہرام ایرانی سپہ سالار سے کہا‘ کہ عربوں کی لڑائی کو عرب ہی خوب جانتے ہیں لہذا آپ اول ہم کو اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے دیجئے‘ مہران نے اس بات کو بخوشی