تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بن عوف رضی اللہ عنہ اٹھے اور تمام مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ جہاں تک میری طاقت میں تھا‘ میں نے ہر طبقہ اور ہرگروہ کی رائے معلوم کر لی ہے اور اس کام میں کسی غفلت و کم التفاتی کو مطلق راہ نہیں دی ‘ میرے فیصلے سے اب کسی کو انکار کا موقع حاصل نہیں ہے‘ کیونکہ بہ رضاورغبت تمام اصحاب شوریٰ اور نامزدگان خلافت نے میرے فیصلے کو ناطق تسلیم کر لیا ہے‘ اور میں اپنی تمام طاقت صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے صرف کر چکا ہوں‘ یہ کہہ کر انہوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کے احکام اور سنت شیخین پر چلنے کا اقرار کرو‘ انہوں نے اقرار کیا کہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم اور صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ کے نمونے پر چلنے کی کوشش کروں گا‘ اس کے بعد سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کے بعد سب لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اول اس نظارہ سے کچھ دل گرفتگی ہوئی اور مسجد سے اٹھ کر باہر جانے لگے‘ لیکن پھر کچھ خیال آیا تو فوراً بڑی عجلت و بے تابی کے ساتھ صفوں کو چیرتے ہوئے بڑھے اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ سیدنا طلحہ اس روز یعنی یکم محرم کو مدینہ میں موجود نہ تھے اور اسی لیے وہ شریک مشورہ نہ ہو سکے تھے‘ سیدنا طلحہ اگلے روز یعنی ۲ محرم ۲۴ ھ کو مدینہ میں تشریف لائے اور یہ سن کر کہ تمام لوگوں نے بالاتفاق سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے سیدنا عثمان کی خدمت میں بغرض بیعت حاضر ہوئے‘ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غنی نے ان سے کہا کہ آپ کی غیر موجودگی میں میرا انتخاب ہو گیا ہے اور زیادہ دنوں آپ کا انتظار نہیں ہو سکتا تھا‘ اگر آپ مدعی خلافت ہوں تو میں آپ کے حق میں خلع خلافت کرنے کو تیار ہوں‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تمام لوگوں نے آپ کی خلافت پر بیعت کر لی ہے تو میں بھی آپ کی خلافت پر رضا مند ہوں‘ میں مسلمانوں میں کوئی فتنہ اور اختلاف ڈالنا نہیں چاہتا‘ یہ کہہ کر انہوں نے بھی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد سیدنا عثمان غنی منبر پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے اعمال صالحہ کی رغبت دلائی‘ مال و دولت کی فراوانی سے جو غفلت پیدا ہوتی ہے اس سے ڈرایا اور رضائے الٰہی کو ہمیشہ مقدم رکھنے کی نصیحت کی‘ اس کے بعد صوبوں کے عاملوں اور حاکموں کے نام ایک حکم جاری کیا جس میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی وفات اور اپنے انتخاب کا تذکرہ تھا‘ نیز ان کو تاکید کی گئی تھی کہ جس طرح فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہو اسی طرح انجام دیتے رہو۔ دربارعثمانی میں پہلا مقدمہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت سے چند روز پیشتر ایک روز ابو لولو ایک خنجر لیے ہوئے ہرمزان کے پاس گیا‘ یہ وہی ایرانی سردار ہرمزان ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے‘ جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر مدینہ منورہ میں رہنے لگا تھا‘ ابو لولو تھوڑی دیر تک ہرمزان کے پاس بیٹھا ہوا باتیں کرتا رہا‘ اس وقت وہاں حیرہ کا باشندہ ایک عیسائی غلام جفینہ نامی بھی بیٹھا تھا‘ ان تینوں کو ایک جگہ بیٹھے اور