تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تو یہ رائے ہے کہ ان قیدیوں کے اندر ہم میں سے جو جس کا عزیز ہے وہی اس کو قتل کرے‘ تاکہ مشرکوں کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے دلوں میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت قرابت داری کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے‘ اور اسلام کے مقابلے میں تمام رشتے ہیچ ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ: فدیہ لے کر ان کو آزاد کر دیا جائے‘ تاکہ مسلمانوں کو کچھ مالی امداد پہنچے‘ اور یہ اپنا سازو سامان جنگ درست کر سکیں اور ممکن ہے کہ ان اسیروں میں سے اکثر کو دین اسلام کے قبول کر لینے کی توفیق بھی میسر ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا‘ بعض قدیوں کو بلا فدیہ لیے ہوئے ویسے ہی چھوڑ دیا‘ فی کس ایک ہزار درہم سے چار ہزار درہم تک فدیہ مکہ والوں نے بھجوا کر اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھڑا لیا‘ جو قیدی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور زر فدیہ بھی ادا نہ کر سکتے تھے ان سے کہا گیا کہ مدینہ کے دس دس بچوں کو لکھنا سکھا دو اور آزاد ہو جائو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی سیدنا زینب رضی اللہ عنھا ابھی تک مکہ میں اپنے شوہر ابوالعاص کے یہاں تھیں‘ ابوالعاص بھی ان قیدیوں میں شامل تھے‘ زینب رضی اللہ عنھا نے اپنے گلے کا ہار اتار کر ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے فدیہ میں بھیج دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا کہ مناسب سمجھو تو زینب رضی اللہ عنھا کا ہار اس کو واپس کر دو کیونکہ یہ اس کی ماں خدیجہ رضی اللہ عنھا کی یادگار اس کے پاس ہے۔ لوگوں نے بخوشی اس بات کو قبول کیا اور سیدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ سیدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے مکہ میں واپس جا کر سیدنا زینب رضی اللہ عنھا کو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجوا دیا‘ ابوالعاص اس واقعہ کے چھ برس بعد مسلمان ہو گئے تھے۔۱؎ کفار مکہ کا جوش انتقام مکہ میں اس شکست کے بعد مقتولین بدر کے ورثاء نے بلند آواز سے نوحہ و زاری نہیں کی‘ کیونکہ اس خبر سے مسلمان خوش ہوتے‘ صفوان بن امیہ نے جس کا باپ امیہ‘ اور بھائی علی‘ دونوں بدر میں مارے گئے تھے‘ عمیر بن وہب کو خفیہ طور پر آمادہ کیا کہ مدینہ میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۳۱۹ تا ۳۲۱۔ کرے۔ عمیر بن وہب زہر میں بجھی ہوئی تلوار لے کر مکہ سے چل کرمدینہ پہنچے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو شبہ گذرا‘ وہ عمیر رضی اللہ عنہ کی تلوار کا قبضہ پکڑ کر رسول اللہ کے پاس لے گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ تم عمیر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریب بلا کر پوچھا کہ کیوں آئے ہو‘عمیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میرا بیٹا قیدیوں میں شامل ہے اسے رہا کرانے آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ پر رحم کریں اور میرے بیٹے کو آزاد کر دیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم کو صفوان نے میرے قتل کے لیے آمادہ کر کے بھیجا ہے سچی بات کیوں نہیں کہتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صفوان اور عمیر کے مشورہ کرنے