تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مصر کی جانب روانہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہو‘ اپنی طاقت اور اثر کو کام میں لا کر لشکر فراہم کرو‘ اور جس وقت ہم طلب کریں فوراً ہمارے پاس بھیج دو۔ مسلمانوں کے خلاف فوج کشی جب اکثر اہل مدینہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم موافق تیار ہو گئے‘ تو آپ نے قاسم بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ مدینہ کا حاکم و عامل تجویز کر کے اپنے بیٹے محمد بن حنیفہ رضی اللہ عنہ کو لشکر کا جھنڈا عطا کیا‘ میمنہ کا افسر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا‘ میسرہ پر عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کو مامور کیا اور ابولیلیٰ ابن الجراح برادر ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کو مقدمۃ الجیش کی سرداری سپرد فرمائی اور اس احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا کہ بلوائیوں میں سے جن کی اکثر تعداد ابھی تک مدینہ میں موجود تھی‘ کسی کو فوج کے کسی حصے کا سردار نہیں بنایا‘ ابھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ فوج کے حصوں کی سرداریاں ہی تقسیم فرما رہے تھے‘ لیکن ابھی فوج مرتب ہو کر مدینہ سے روانہ نہیں ہوئی تھی کہ مکہ کی جانب سے خبر پہنچی کہ وہاں آپ کی مخالفت میں تیاریاں ہو رہی ہیں‘ یہ خبر سن کر آپ نے سردست ملک شام کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ مکہ میں سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کی تیاریاں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے‘ سیدنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بعد ادائے حج مدینہ کو واپس آ رہی تھیں کہ راستے میں مقام سرف میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال سن کر مکہ کو واپس لوٹ گئیں‘ اس خبر کے ساتھ ہی آپ کو یہ خبر بھی معلوم ہو گئی تھی کہ سیدنا علی کے ہاتھ پر لوگوں نے مدینہ میں بیعت کر لی ہے‘ جب آپ مکہ میں واپس تشریف لے آئیں تو آپ کی اس طرح واپسی کا حال سن کر لوگ آپ کی سواری کے اردگرد جمع ہو گئے‘ آپ نے اس مجمع کے رو برو فرمایا کہ واللہ عثمان رضی اللہ عنہ مظلوم مارے گئے‘ میں ان کے خون کا بدلہ لوں گی‘ افسوس ہے کہ اطراف و جوانب کے شہروں اور بیابانوں سے آئے ہوئے لوگوں اور مدینہ کے غلاموں نے مل کر بلوہ کیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت اس لیے کی کہ اس نے نو عمروں کو عامل مقرر کیا تھا حالانکہ اس کے پیش روئوں نے بھی ایسا کیا تھا‘ یہ بلوائی جب اپنے دعوے پر دلیل نہ لا سکے‘ تو عثمان رضی اللہ عنہ کی عداوت پر کمربستہ اور بدعہدی پر آمادہ ہو گئے‘ جس خون کو اللہ تعالی نے حرام کیا تھا اس کو بہایا‘ اور جس شہر کو خدائے تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا دارالہجرت بنایا تھا وہاں خوں ریزی کی اور جس مہینے میں خوں ریزی ممنوع تھی اس مہینے میں خوں ریزی کی اور جس مال کا لینا جائز نہ تھا اس کو لوٹ لیا‘ واللہ عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک انگلی بلوائیوں جیسے تمام جہاں سے افضل ہے‘ جس وجہ سے یہ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے دشمن ہوئے تھے‘ عثمان رضی اللہ عنہ اس سے پاک و صاف تھا۔ مکہ معظمہ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی جانب سے عبداللہ بن عامر حضرمی عامل تھے‘ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ صدیقہ کی یہ تقریر سن کر کہا کہ سب سے پہلے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے والا میں ہوں۔ یہ سنتے ہی تمام بنو امیہ جو بعد شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ابھی مکہ میں پہنچے تھے بول اٹھے‘ ہم سب آپ کے شریک ہیں‘ ان ہی میں سعید بن العاصی اور ولید بن عقبہ وغیرہ بھی شامل تھے‘ عبداللہ بن عامر بصرہ سے معزول ہو کر مکہ ہی کی جانب آئے‘ یعلیٰ بن منبہ یمن سے