تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روئی ٹھونس لی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اچانک محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز اس کے کانوں میں پڑ جائے۔ ایک روز علی الصبح طفیل اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر خانہ کعبہ میں پہنچے۔ وہاں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نماز فجر پڑھ رہے تھے‘ نماز پڑھنے کا طریقہ جو آنکھوں سے نظر آتا تھا طفیل کو اچھا معلوم ہوا اور وہ ۱؎ ’’سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اسی کی ہم تعریف کرتے ہیں اور صرف اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے‘ اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے‘ اسے کوئی سیدھا راستہ نہیں دکھا سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں! اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ ۲؎ صحیحمسلم۔کتابالجمعہ۔بابتخفیفالصلوٰۃوالخطبۃ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب چلے گئے‘ وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرات کی آواز بھی کچھ کچھ سنائی دینے لگی‘ اب طفیل کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آخر میں بھی شاعر ہوں‘ عقلمند ہوں‘ اگر اس شخص کی باتیں اچھی ہوں گی تو مان لوں گا‘ اگر بری ہیں تو انکار کر دوں گا یہ خیال آتے ہی روئی کانوں سے نکال کر پھینک دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نماز ختم کر کے اپنے گھر کی طرف چلے تو طفیل بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے پیچھے ہو لئے اور کہا کہ مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی باتیں سنائیں‘ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن مجید پڑھ کر سنایا‘ طفیل اسی وقت مسلمان ہو گئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعاء کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ میرے قبیلہ والوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے‘‘ طفیل رضی اللہ عنہ مکہ سے اپنے گھر آئے اور تبلیغ اسلام شروع کر دی‘ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ مکہ والے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت ستاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت فرمائیں اور میرے گھر چل کر رہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھ کو ہجرت کا حکم دے گا تب ہی ہجرت کروں گا اور جس جگہ کے لئے حکم ہو گا اسی جگہ ہجرت کر کے جائوں گا۔۱؎ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی غفار سے تعلق رکھتے اور مدینہ (یثرب) کے نواحی علاقہ میں رہتے تھے‘ مدینہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ کے ذریعہ پہنچی اور اڑتی ہوئی سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی انیس کو جو شاعر بھی تھے تحقیق حال کے لئے مکہ روانہ کیا‘ انیس نے مکہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی اور مدینہ واپس جا کر سیدنا ابوذر سے ذکر کیا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک ایسا شخص پایا جو نیکی کی ترغیب اور بدی سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی اس بات سے کچھ تسلی نہ ہو سکی‘ مدینہ سے پیدل چل کر مکہ پہنچے یہاں تک کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں باریاب ہوتے ہی اسلام قبول کیا اور اسی وقت خانہ کعبہ میں آ کر جہاں قریش کا مجمع تھا بلند آواز سے کلمہ توحید پڑھا اور قرآن مجید کی جو آیات یاد کر لی تھیں سنائیں‘ قریش نے کہا کہ اس بے دین کو مارو‘ چنانچہ چاروں طرف سے لوگ پل پڑے اور مارتے مارتے بیہوش کر