تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیوار کود کر ایک جماعت ان کے مکان کے اندر داخل ہو گئی۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت بلوائیاں مصر نے جب مدینہ میں دوبارہ واپس آ کر خط لوگوں کو دکھایا اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حلفیہ اس خط سے اپنی لا علمی کا اظہار کیا‘ تو عبدالرحمن بن عدیس نے جو بلوائی سرغنہ تھا کہا کہ تم اپنے اس قول اور حلف میں جھوٹے ہو تب بھی اور سچے ہو تب بھی تمہارا خلیفہ رکھنا کسی طرح جائز نہیں کیونکہ اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو جھوٹے کو مسلمانوں کا خلیفہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر سچے ہو تو ایسے ضعیف خلیفہ کو جس کی اجازت و اطلاع کے بغیر جو جس کا جی چاہے حکم لکھ کر بھیج دے خلیفہ نہیں رکھنا چاہیے۔ عبدالرحمن بن عدیس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ خود ہی خلافت کو چھوڑ دیں‘ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس کرتے کو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنایا ہے خود نہیں اتاروں گا‘ یعنی خلافت کے منصب کو خود نہیں چھوڑوں گا‘ اس کے بعد بلوائیوں نے ان کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور سختی شروع کی‘ جب خلیفہ وقت پر پانی بھی بند کر دیا گیا اور پانی کی نایابی سے تکلیف و اذیت ہوئی تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے مکان کی چھت پر چڑھے اور اپنے حقوق جتائے اور اپنا سابق الایمان ہونا بھی لوگوں کو یاد دلایا‘ اس تقریر کا بلوائیوں پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ ان میں سے اکثر یہ کہنے لگے کہ بھائی اب ان کو جانے دو اور ان سے درگذر کرو‘ لیکن اتنے میں مالک بن اشتر آ گیا‘ اس نے لوگوں کے مجمع کو پھر سمجھایا کہ دیکھو کہیں دام فریب میں نہ آ جانا‘ چنانچہ لوگ پھر مخالفت پر آمادہ ہو گئے۔ بلوائیوں کو جب یقین ہو گیا کہ ممالک اسلامیہ سے جو فوجیں آئیں گی وہ ضرور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حامی اور ہماری مخالف ہوں گی‘ تو انہوں نے یعنی ان کے سرداروں نے سیدنا عثمان غنی کے شہید کر دینے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ انہیں ایّام میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے حج کا ارادہ کیا اور اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو بلوایا کہ وہ ہمارے ساتھ چلیں تو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا‘ کیوں کہ وہ بلوائیوں کے ساتھ شیروشکر ہو رہے تھے‘ سیدنا حنظلہ کاتب وحی نے کہا کہ تم ام المومنین کے ساتھ نہیں جاتے اور مفہاء عرب کی پیروی کرتے ہو‘ یہ تمہاری شان سے بعید ہے‘ محمد بن ابی بکر نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا‘ پھر حنظلہ کوفہ کی طرف چلے گئے۔ سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر اور دوسرے صحابیوں رضی اللہ عنھم نے اپنے اپنے دروازے بند کر لیے تھے‘ نہ گھر سے باہر نکلتے تھے نہ کسی سے ملتے تھے‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر موجود رہ کر بلوائیوں کا مقابلہ کیا اور ان کو روکا‘ لیکن ان کو سیدنا عثمان غنی نے امیر الحاج بنا کر باصرار مکہ کی طرف روانہ کیا ورنہ وہ فرماتے تھے کہ مجھ کو ان بلوائیوں سے جہاد کرنا حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے‘ حسن بن علی‘ عبداللہ بن زبیر‘ محمد بن طلحہ‘ سعید بن العاص رضی اللہ عنہم نے دروازہ کھولنے سے بلوائیوں کو روکا اور لڑ کر ان کو پیچھے ہٹا دیا۔ لیکن سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو قسمیں دے کر لڑنے سے روکا اور گھر کے اندر بلا لیا‘ بلوائیوں نے دروازے کو آگ لگا دی اور اندر گھس آئے‘ ان