تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تمہاری حمایت سے باز نہ رہوں گا‘ تم کو کبھی دشمنوں کے سپرد نہ کروں گا۔ ۱؎ حبشہ کی طرف ہجرت کفار قریش کو جب ان تمام کوششوں میں ناکامی ہوئی اور تبلیغ توحید کاسلسلہ برابر جاری رہا تو ان کو اب فکر ہوئی‘ انہوں نے دیکھا کہ جس تحریک کو ہم بچوں کا کھیل سمجھ رہے تھے وہ اب نشوونما پا کراس قدر طاقتور ہو گئی ہے کہ ان کا انسداد آسان کام نہیں رہا۔ انہوں نے اب متفقہ طور پر مخالفت پر کمر باندھی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خانہ کعبہ کے اندر آنے سے روک دیا‘ شہر کے لڑکوں اور اوباشوں کو متعین کیا کہ جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یا مسلمانوں میں سے کسی کو دیکھیں‘ تالیاں بجائیں‘ گالیاں دیں‘ راستوں اور گلی کوچوں میں چلنے پھرنے سے باز رکھیں‘ باہر سے آنے والے مسافروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نہ ملنے دیں اور جس طرح قابو چلے اور موقع ملے ستائیں‘ ضعیف مسلمانوں کو اب پورے جوش اور بڑے عزم و ہمت کے ساتھ تنگ کرنا اور ستانا شروع کر دیا‘ یہاں تک کہ شہر مکہ کی سر زمین مسلمانوں کے لیے تنگ ہو گئی‘ اور مسلمانوں کی زندگی وبال بن گئی‘ یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو اجازت دی کہ ملک حبش میں (جہاں عیسائی حکومت تھی) چلے جائو۔ چنانچہ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینہ میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبش کے ارادہ سے مکہ چھوڑا‘ یہ پندرہ آدمیوں کا مختصر قافلہ رات کے وقت چھپ کر مکہ سے نکلا‘ شعیبہ کی بندگاہ پر اتفاقاً جہاز تیار مل گیا اور یہ لوگ جہاز میں سوار ہو کر ملک حبش میں پہنچ گئے‘ ان اولون المہاجرین میں قابل تذکرہ حضرات یہ تھے۔ سیدنا عثمان بن عفان‘ ان کی بیوی رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ‘ سیدنا حذیفہ بن عتبہ‘ سیدنا عثمان بن مظعون ‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف‘ سیدنا زبیر ابن العوام‘ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا عامر بن ربیعہ‘ سیدنا سہل ابن بیضا رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ یہ لوگ عموماً قریش کے مشہور اور طاقت ور قبائل سے تعلق رکھنے والے تھے جو دلیل اس امر کی ہے کہ اب قریش کے مظالم صرف غلاموں اور ضعیفوں تک ہی محدود نہ تھے بلکہ وہ ہر ایک مسلمان کو خواہ وہ کیسے ہی طاقت ور قبیلہ کا آدمی کیوں نہ ہو نشانہ مظالم بنانے میں متامل نہ تھے‘ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کمزور اور بے کس لوگوں میں اتنی بھی استطاعت نہ تھی کہ سامان سفر ہی حاصل کر سکیں‘ کفار کو جب ۱؎ سیرت ابن ہشام بہ حوالہ الرحیق المختوم‘ صفحہ ۱۳۹ و ۱۴۰۔ ان مسلمانوں کے ہجرت کرنے اور حبش کی طرف روانہ ہونے کا حال معلوم ہوا تو وہ تعاقب میں روانہ ہوئے لیکن کفار کے پہنچنے سے پیشتر جہاز بندرگاہ جدہ سے حبش کی طرف روانہ ہو چکا تھا‘ حبش میں پہنچ کر مسلمان اطمینان اور فراغت کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کے بعد مسلمانوں نے یکے بعد دیگرے حبش کی طرف ہجرت کا سلسلہ جاری رکھا۔ جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بھی حبش میں اپنے مسلمان بھائیوں سے جا ملے۔ اب مسلمانوں کی تعداد ملک حبش میں تراسی (۸۳) تک پہنچ گئی تھی۔ مسلمانوں کو ملک حبش میں گئے ہوئے ابھی چند ہی مہینے گذرے تھے کہ وہاں انہوں نے یہ افواہ سنی کہ قریش مکہ تمام مسلمان ہو گئے یا ان سے مصالحت ہو گئی اور اب