تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۸۶۔ سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو حجیربن ابی اہاب نے لے لیا تھا۔۱؎ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ قتل گاہ میں لائے گئے تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور یہ اجازت مل گئی‘ انہوں نے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی‘ بعد نماز انہوں نے مشرکین سے کہا کہ میں نماز کو بہت طویل کرنا چاہتا تھا مگر محض اس خیال سے کہ تم یہ نہ کہو کہ قتل سے ڈرتا ہے اور ڈر کر نماز کے بہانے دیر لگاتا ہے میں نے نماز جلدی پڑھی ہے۔ مشرکوں نے سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی پر لٹکا دیا اور ہر طرف سے نیزے لے لے کر ان کے جسم کو کچوکے دینا اور چھیدنا شروع کیا‘ تاآنکہ اسی طرح زخم دار ہوتے ہوتے ان کی روح قالب سے پرواز کر گئی‘ ۲؎سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے جس بہادری کے ساتھ جان دی ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں دستیاب نہیں ہو سکتی۔ روح فرسا حادثہ چند روز بعد اسی ماہ صفر ۴ھ میں ابوبراء عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اسلام کی دعوت دی‘ وہ نہ تو مسلمان ہوا اور نہ اس نے اسلام کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھا‘ بلکہ کہنے لگا کہ مجھ کو اپنی قوم کا خیال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کچھ لوگوں کو میرے ساتھ کر دیں کہ وہ نجد میں چل کر میری قوم کو اسلام کی طرف بلائیں‘ اور نصیحت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو اہل نجد سے اندیشہ ہے کہ وہ ان مسلمان کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ابوبراء نے کہا اس بات کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم مطلق اندیشہ نہ کریں میں ان لوگوں کو اپنی حمایت میں لے لوں گا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منذربن عمرو رضی اللہ عنہ ساعدی کو ستر صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ روانہ فرمایا۔ یہ ستر اصحاب رضی اللہ عنھم سب کے سب قاری اور قرآن کریم کے حفاظ تھے۔ جب یہ لوگ ارض بنو عامر اور حرہ بنو سلیم کے درمیان بیر معونہ پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خط حرام بن ملجان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ عامر بن طفیل کے پاس پہنچا‘ یہ عامر بن الطفیل ابوبراء عامر بن مالک مذکورہ کا بھتیجا تھا۔ اس نے اس خط کو پڑھا تک نہیں اور سیدنا حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا‘ پھر اپنی قوم بنو عامر کو ترغیب دی کہ ان تمام مسلمانوں کو قتل کر دو‘ لیکن بنو عامر نے انکار کیا‘ تب اس نے بنو سلیم سے کہا۔ چنانچہ بنو سلیم کے قبائل ‘ رعل‘ ذکوان‘اور عقبہ آمادہ ہو گئے اور بلا جرم ظالموں نے سب کو شہید کر ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۰۰ و ۴۰۱۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۸۶۔سیرت ابن ہشام ص ۴۰۱۔ ڈالا۔ ابوبراء عامر بن مالک کو اس حادثہ کا بڑا رنج ہوا کہ اس کی امان میں اس کے بھتیجے نے فتور ڈالا‘ اسی رنج میں چند روز کے بعد وہ مر گیا‘ عامر بن طفیل سیدنا عمروبن امیہ ضمری کو گرفتار کر کے لے گیا تھا‘ پھر ان کے چہرے کے بال تراش کر اس نے چھوڑ دیا‘ کیونکہ اس کی ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی تھی‘