تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوست تھا‘ نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اسکو کوئی ہمدردی تھی‘ وہ تو دونوں کا یکساں دشمن اور اسلام کی بربادی کا خواہاں تھا‘ اس لیے جہاں اس نے ایک طرف سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کرایا‘ دوسری طرف سیدنا علی کو شریک سازش ثابت کر کے ان کی عزت و حرمت کو بھی سخت نقصان پہنچانا چاہا۔ ۱؎ خصائل و خصائص عثمانی رضی اللہ عنہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی فطرت نہایت ہی سلیم و برد بار واقع ہوئی تھی‘ عہد جاہلیت ہی میں شراب اپنے اوپر حرام کر لی تھی‘ کبھی جاہلیت میں بھی زنا کے پاس تک نہیں پھٹکے‘ نہ کبھی چوری کی‘ عہد جاہلیت میں بھی لوگ ان کی سخاوت سے ہمیشہ فیض یاب ہوتے رہتے تھے‘ ہر سال حج کو جاتے‘ منیٰ میں اپنا خیمہ نصب کراتے‘ جب تک حجاج کو کھانا نہ کھلا لیتے لوٹ کر اپنے خیمے میں نہ آتے‘ اور یہ وسیع دعوت صرف اپنی جیب خاص سے کرتے۔ جیش العسرۃ کا تمام سامان سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مہیا فرمایا تھا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر بار بار فاقہ کی مصیبت آتی تھی‘ اکثر موقعوں پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہی واقف ہو کر ضروری سامان بھجواتے تھے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار ان کے لیے دعا کی ہے کہ ۱؎ مصنف کا یہ تبصرہ خاصا حقیقت پسندانہ اور محتاط ہے تاہم کسی قدر غیر ضروری نکتہ آفرینی بھی ہے۔ الٰلھم انی قدرضیت عن عثمان فارض عنہ الٰلھم انی قد رضیت عن عثمان فارض عنہ اے اللہ میں عثمان رضی اللہ عنہ سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا‘ اے اللہ میں عثمان رضی اللہ عنہ سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا شام سے صبح تک مانگتے رہے۔ ایک مرتبہ خلافت صدیقی رضی اللہ عنہ میں سخت قحط پڑا‘ لوگوں کو کھانا اور غلہ دستیاب نہ ہونے کی سخت تکلیف ہوئی‘ ایک روز خبر مشہور ہوئی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار اونٹ غلہ سے لدے ہوئے آئے ہیں‘ مدینہ کے تاجر فوراً سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ ہم کوڈیوڑھے نفع سے غلہ دے دو‘ یعنی جس قدر غلہ تم کو سو روپے میں پڑا ہے‘ ہم سے اس کے ڈیڑھ سو روپے لے لو‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم سب گواہ رہو کہ میں نے اپنا تمام غلہ فقراء و مساکین مدینہ کو دے دیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب سے ایمان لائے آخر وقت تک برابر ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے رہے‘ کبھی اگر کسی جمعہ کو آزاد نہ کر سکے تو اگلے جمعہ کو دو غلام آزاد کئے‘ ایام محاصرہ میں بھی جب کہ بلوائیوں نے آپ پر پانی تک بند کر رکھا تھا‘ آپ نے غلاموں کو برابر آزاد کیا‘ آپ خود نہایت سادہ کھانا کھاتے اور سادہ لباس پہنتے‘ لیکن مہمانوں کو ہمیشہ لذیذ لذیذ اور قیمتی کھانا کھلاتے تھے‘ عہد خلافت میں آپ نے کبھی دوسرے لوگوں پر فضیلت و برتری تلاش نہیں کی‘ سب کے ساتھ بیٹھتے سب کی عزت کرتے‘ اور کسی سے اپنی تکریم کے خواہاں نہ ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے غلام سے کہا کہ میں نے تیرے اوپر زیادتی کی تھی تو مجھ سے اس کا بدلہ لے لے‘ غلام نے آپ کے کہنے سے آپ کے کان پکڑے‘ آپ نے اس سے کہا