تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے ایک تحریر بھیجی‘ جس کی رو سے وہ یہود اور مجوسیوں سے جزیہ وصول کرنے لگا۔ --- ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۴۸ و ۵۴۹۔ ہجرت کا نواں سال فتح مکہ اور جنگ حنین کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ملک عرب کے مشرک لوگ خود بخود آ آ کر اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے۔ ۹ ھ کے شروع ہوتے ہی ملک عرب کے دور دراز علاقوں سے قبیلوں اور قوموں نے اپنے وکلاء بھیج بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اقرار کیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوئے‘ اس سال بڑی کثرت سے وفود آئے اور عرب قبائل برابر مسلمان ہوتے رہے‘ اسی لیے ۹ ھ عام الوفود کے نام سے مشہور ہے۔۱؎ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دینوی اعتبار سے بھی شہنشاہ عرب کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی‘ مسلمانوں پر تو زکو ۃ فرض تھی‘ جو قبائل ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے ان سے ایک خفیف رقم بطور جزیہ وصول کی جاتی تھی‘ بس یہی زکو ۃ یا جزیہ وہ خراج تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شہنشاہی میں رعایا سے وصول کیا جاتا تھا‘ زکو ۃ کے متعلق بعض دقتیں بھی پیش آئیں‘ بعض عامل بھی شہید ہوئے‘ بعض قبائل کو اس انتظام کے قائم رکھنے کی وجہ سے سرزنش بھی کی گئی بالآخر یہ انتظام اور ملک کا نظام بحسن و خوبی قائم ہو گیا۔ غزوہ تبوک جنگ موتہ کی ہزیمت کا انتقام لینے کے لیے غسانی بادشاہ نے ایک لشکر عظیم فراہم کر کے ہرقل روم سے امداد طلب کی‘ ہرقل نے چالیس ہزار کا لشکر جرار غسانی بادشاہ کے پاس بھیجا اور خود بھی عظیم الشان فوج لے کر عقب سے روانہ ہونے کا قصد کیا‘ ابوعامر راہب جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے مکہ سے قیصر روم کے پاس چلا گیا تھا‘ اس کا